اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) وزیر اعظم عمران خان کے مشیران اور خصوصی معاونین کی غیر ملکی شہریت کے انکشاف کے بعد ملکی سیاست میں ایک بار پھر حدت بڑھ رہی ہے۔ کئی حلقوں میں ان معاونین اور مشیروں کے عہدوں کے قانونی اور آئینی پہلووں پر بھی بحث ہورہی ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے ہفتہ 18 جولائی کو 20 مشیروں اور خصوصی معاونین کے اثاثے اور قومیت کا اعلان کیا تھا۔ ان میں سے چار خصوصی معاونین کی غیر ملکی شہریت ہے جب کہ چار معاونین کے پاس ریذیڈینسی اور ایک کے پاس رہائشی پرمٹ ہے۔
اس انکشاف کے بعد عمران خان کی حکومت کے خلاف تنقید کا ایک سیلاب امڈ آیا ہے۔ مرکزی اپوزیشن جماعت نون لیگ اور دوسری سیاسی جماعتوں نے اسے پی ٹی آئی کی حکومت کی منافقت قرار دیا جب کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اسحاق ڈار، خواجہ آصف اور نون لیگ کے دوسرے رہنماؤں کے اقامہ پر سوالات اٹھائے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس مسئلے پر خوب بحث چل رہی ہے جب کہ پاکستان کے ٹی وی چینلز پر بھی اسی موضوع پر سب کی توجہ ہے۔
آج قومی اسمبلی میں بھی اس پر وفاقی وزیر مراد سعید نے دھواں دھار تقریر کی اور کہا کہ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ حکومت کی طرف سے پہلی بار اپنے مشیروں اور معاونین کی شہریت اور اثاثے ظاہر کیے گئے ہیں۔ اپوزیشن بھی اپنے ارکان کی غیر ملکی قومیت کو ظاہر کرے۔ ماضی میں نواز شریف اور وزیر دفاع بیرون ملک نوکری کرتے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم بننے سے پہلے عمران خان بھی غیر ملکیوں کو اہم عہدوں پر رکھنے کے سوال پر نون لیگ اور پی پی پی پر بہت تنقید کرتے تھے۔ اب ان کے ناقدین ان کی انہی تقریروں اور ٹاک شوز کے کلپز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر رہے ہیں اور پی ٹی آئی پر تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں۔
کئی ناقدین اس کے قانونی پہلووں پر بھی بات چیت کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ آئین میں ایسی کوئی قدغن نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ کسی کو بھی اپنا مشیر یا معاون مقرر کریں۔ آئین میں وزراء اور ارکان پارلیمان کے لیے شرائط ہیں لیکن معاونین اور مشیروں کے لیے ایسی کوئی قدغن نہیں ہے۔‘‘ ان کا مذید کہنا تھا کہ تاہم اس انکشاف سے حکومت پر اخلاقی اور دفاعی نقطہ نظر سے سوالات اٹھائے جائیں گے: ”لوگ پوچھیں گے کہ کیا ان افراد کی وفاداری پاکستان کے ساتھ ہے یا اُس ملک کے ساتھ جن کی وفاداری کا انہوں نے حلف اٹھایا ہے۔ اس سے پی ٹی آئی کی اخلاقی پوزیشن کمزور ہو گی۔‘‘
تاہم کئی ناقدین کا خیال ہے کہ اگر مشیر کا درجہ وزیر کے برابر ہے تو پھر وہ کابینہ کا حصہ ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہ الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ کہنا مناسب نہیں کہ وزیر اعظم کی صوابدید ہے اور وہ کچھ بھی کریں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ایک بھارتی شہری کو بھی معاون یا مشیر بنا سکتے ہیں۔ مشیر کا درجہ اگر وزیر کے برابر ہے تو وہ حکومت کا حصہ ہے۔‘‘
فواد چودھری کے مطابق پارلیمانی نظام میں غیرمنتخب لوگ فیصلہ سازی میں شامل نہیں ہوسکتے، فیصلہ سازی میں صرف منتخب لوگ ہی حصہ لے سکتے ہیں۔
مسلم لیگ نون کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی حکومت کو اس مسئلے پر چھوڑے گی نہیں: ”کس قانون کے تحت یہ مشیر عہدے رکھ سکتے ہیں۔ ان کی وفاداری کس کے ساتھ ہے۔ ہمیں کیا پتہ کہ یہ کس کے لیے کام کر رہے ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں۔ اس انکشاف سے عمران خان کی منافقت سامنے آگئی ہے اور ہم اس کو مزید عوام کے سامنے لائیں گے۔‘‘
قبل ازیں وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت دوہری شہریت والوں پر اسمبلی میں آنے پر پابندی ہے تو پھر دوہری شہریت والے کابینہ کا حصہ کیسے ہوسکتے ہیں؟ فواد چودھری کے مطابق پارلیمانی نظام میں غیرمنتخب لوگ فیصلہ سازی میں شامل نہیں ہوسکتے، فیصلہ سازی میں صرف منتخب لوگ ہی حصہ لے سکتے ہیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ قانون واضح ہے، دوہری شہریت رکھنے والے رکن پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بن سکتے اور کل کابینہ اجلاس میں اس معاملے پر بات ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ دوہری شہریت کے حوالے سےقانون واضح ہے۔
پنجاب حکومت کے ایک سینیئر وزیر اور پی ٹی آئی کے رہنما عبدالعلیم خان کا کہنا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ مشیران نے اپنے اثاثے قوم کے سامنے رکھے ہیں، ماضی میں حکومت میں آنے کا مطلب مال بنانا اور اثاثوں میں اضافہ کرنا تھا۔