وزیراعظم سے صحافیوں پر حملوں میں ملوث افراد کا استثنا ختم کرنیکا مطالبہ

journalists

journalists

اسلام آباد (جیوڈیسک) ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت 10 عالمی تنظیموں نے وزیر اعظم نواز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف حملوں کی تحقیقات کے لئے وفاقی اور صوبائی سطح پر پبل پراسیکیوٹرز کی تقرری عمل میں لائی جائے اور پراسیکیوٹرز کو عام لوگوں کے ساتھ ساتھ فوجی اور انٹیلی جنس اہلکاروں سے تفتیش کا اختیار ہونا چاہئے۔

مقتول صحافی سلیم شہزاد کی تیسری برسی پر ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، رپورٹرز ود آؤٹ بارڈر، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس اور فریڈم ہاؤس سمیت انسانی حقوق اور میڈیا کے شعبوں سے تعلق رکھنے والی دس تنظیموں نے وزیراعظم کو مشترکہ خط لکھا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد کم از کم آٹھ صحافی قتل کیے جاچکے ہیں۔ صحافیوں پر حملوں کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی میں ناکامی اس بات کا اشارہ ہے کہ میڈیا کو تشدد کے ذریعے خاموش کرایا جاسکتا ہے۔

اس کا پاکستان میں آزادی اظہار پر بھی اثر پڑا ہے اور صحافی لاحق خطرات سے بچنے کے لیے خود پر سنسر شپ نافذ کررہے ہیں۔ عالمی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے ہنگامی طور پر یہ اقدامات کیے جائیں۔ حکومت اپنے وعدے کے مطابق سلیم شہزاد کے اغوا اور قتل کی تفتیش دوبارہ شروع کرے۔ کسی بھی فوجی اور انٹیلی جنس اہل کار سمیت تمام مشتبہ افراد سے تفتیش کی جائے۔ صحافیوں کے اغوا، جبری گمشدگی، تشدد، قتل اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے چاہے وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں۔

صحافیوں کے خلاف حملوں کی تحقیقات کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر پبلک پراسیکیوٹرز کی تقرری کے لیے وزیراعظم کے اعلان کردہ منصوبے پر عمل کیا جائے۔ پراسیکیوٹرز کی آزادی، انہیں مناسب عملے اور وسائل کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ پراسیکیوٹرز کو عام لوگوں کے ساتھ ساتھ فوجی اور انٹیلی جنس اہل کاروں سے تفتیش کا اختیار بھی ہونا چاہیے۔

عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم گواہوں کے تحفظ کے پروگرام اور صحافیوں کے قاتلوں کے مقدمات کی سماعت کا مقام تبدیل کرنے کے ذریعے عدالتی عمل تیز کرنے کا وعدہ بھی پورا کریں۔ یہ بات یقینی بنائی جائے میڈیا کمپنیاں صحت اور تحفظ سمیت قومی قانون اور پالیسی کے دیگر معیارات کی پاس داری کریں۔