ہمارا وزیر اعظم گھر گھر کشکول لئے پھر رہا ہے

 Imran Khan

Imran Khan

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید

پاکستان کے سلیکٹیڈ وزیر اعظم پاکستان، کو لانے والے بھی آج پاکستان کی بگاڑی گئی معاشی صورتِ حال پر درونِ خانہ ماتم کر رہے ہوں گے۔پی ٹی آئی کی نئی بننے والی حکومت نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی عوام کی چیخیں اپنے ابتدائی سو دنوں میں ہی نکلوانا شروع کر کے ،الزم ماضی کی حکومتوں پر دھرنا شروع کر دیئے۔مہنگائی کا ایسا طوفان تبدیلی کے نعروں والی سرکار نے اٹھایا کہ عومی آہ و بکا میں کہیں کان پڑی آواز تک سنائی نہیں دے رہی ہے۔آٹامہنگا، چینی مہنگی،سبزیاں اور دالیں مہنگی،پیٹرول،گیس و بجلی کی قیمتوں نے عوام کی سانسیں روک لی ہیں،ٹرانسپورٹ کرایوں نے الگ عوام کو پریشانی میں مبتلا کر چھوڑا ہے۔حکمران ہیلی کوپٹروں پر کتوں کے ساتھ اور بیرونی دوروں کی عیاشیوں میں لگے ہوئے ہیں اور عوام خود کشیوں پر خود کشیاں کر رہے ہیں۔کنٹنر سرکار کی دھمکیاں ہیں کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی ہیں۔کبھی 30 کی فیگر دی جاتی ہے تو کبھی 50 ،اور 500 کی دی جاتی ہے۔عوام ان سے پوچھتے ہیں۔ کیازمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ کنٹینر سرکار کہتی تھی کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو خودکشی کر لوں گا۔پاکستان کی عوام بے چینی سے اُس شُب دن کی منتظر ہے!یہ بھی آج کا المیہ ہی ہے کہ کشکول کے مخالفوں کے ہاتھوں میں ماضی سے کہیں بڑا کشکول دکھائی دے رہا ہے۔ آج فلک کا تھوکا حکمرانوں کے حلق میں گر رہا ہے۔وزیرِ اعظم عمران احمد نیازی جن باتوں پر کنٹینر پر کھڑے ہو کر گلا پھاڑ پھاڑ کے چلاتے تھے اور ن لیگ کے حکمرانوں کو گالیان دیا کرتے تھے۔ آج وہ سب کچھ ماضی سے بڑھ کر تیزی کے ساتھ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔کانپتی آوازوں سے یہ بھی کہا جارہا ہے ہم کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔تو پھر مولانا فضل الرحمان کی خوشامدیں کس لئے کی جا رہی ہیں؟

سعودی حکمرانوں کو آج ماضی سے ہزار درجہ زیادہ پاکستان کی ضرورت جمال کاشقجی کے بہیمانہ قتل کے بعد پیش آرہی ہے۔ورنہ وزیرِاعظم ستمبر میں بڑا کشکول لے کر سعودی حکمرانوں کے سامنے ڈنڈوت کر رہے تھے۔مگراُس وقت کشکول خالی ہی لے کر منہ بسورتے ہوئے واپس آگئے تھے۔موجودہ بھیک کے ٹکڑے کاشقجی کے قتل کے دباؤ کوکم کرنے کی غرض سے وزیر اعظم کی جھولی میں سعودیوں نے ڈالے ہیں۔ خیرات کے چند سکے کنٹینر سرکار کے کشکول میں ڈال کر عالمی دباؤ کے پیشِ نظر عمران نیازی کی باچھیں کھلا دیں ہیں۔جبکہ پاکستان میں آج ڈونکی کنگ کے بھی بے حد چرچے سُنائی دے رہے ہیں۔ ڈونکی راجہ کہہ رہا ہے کہ وہ بجائے گا سب کا باجہ!!!دوسری جانب شاہ محمود قریشی وزیرِ کارجہ بھی گلا پھاڑ پھاڑ کر دنیا کو بتا رہے ہیں کہ سعودی عرب نے کوئی شرط نہیں رکھی مگر پچھلے مہینوں کا حوالہ اور کشکول پر لات مارے جانے کا ذکر کرتے ہوئے ان کی زبانیں گنگ ہیں!اب یہ لوگ یہ طعنہ بھی دے رہے ہیں کہ شریف خاندان سعودی عرب کے راڈار پر دکھائی نہیں دے رہاہے۔ان سے پوچھو ،کیا شریف خاندان ان کے پیچھے کھڑے لوگوں کامعتوب نہیں ہے؟سعودیوں کو آج مقتدر پاکستانیوں کی حمایت کی اشد ضرورت ہیمعتوب لوگ اس وقت ان کے کسی کام کے نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ شریف خاندان کو بیچ میں لانا ہی نہیں چاہتے ہیں۔

ایسی ضرورت سعودیوں کو پاکستان کی کبھی پڑی ہی نہیں تھی۔ جمال کشقجی کے قتل نے پی ٹی آئی حکومت کی تو جیسے لو ٹری نکلوا دی ہے۔اور اب وزیر اعظم اپنے سیاسی مخالفین کا پیچھے والوں کی مدد سے بجائیں گے باجہ۔ آج سعودی عرب یاترا کے بعد تو وزیرِاعظم کی ٹون میں خاصی طاقت آگئی ہے۔اب تو جیسے پاکستان میں مہنگائی کا طوفان تھم گیا ہے، بجلی، گیس ،پیٹرول کی قیمتیں ن لیگ کے دور سے بھی کم کر دی گئی ہیں۔بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیا ہے۔راوی اب تو چین ہی چین لکھنے پر مجبور ہوگا!شُتر بے مہار کی طرح کے اداروں پرتو جیسے حکمرانوں نے قابو پالیا ہے۔ وزیرِ اعظم نہ جانے کس ترنگ میں کہہ رہے تھے کہ قوم کو جلد مزید خوشخبریاں سُناؤں گا!مہنگائی آسمان پر پہنچانے کے بعد کہتے ہیں غریب اور کمزور طبقات کی فلاح و بہبود اور غربت میں کمی کے لئے خصوصی پیکیج کا اعلان جلد کیا جائیگا؟ایسے جملون پر دنیا میں لوگ قہقہے لگا رہے ہیں۔کنٹینر سرکار کی جانب سے عوام کو لولی پاپ دے کر سلانے کی گویا کوششیں کی جا رہی ہیں۔اور سب سے مذحقہ خیز بات یہ کہی کہ پاکستان جلد قرض لینے کی بجائے قرض دینے والوں کی صف میں شامل ہو گا!جس ملک کا سارا بجٹ ایک ادارا ہڑپ کر جاتا ہو وہ ملک کیا خاک عوامی بہبود کے کام کرے گا۔بھیک کی رقم ملنے کی امیدوں پر ہمارے سلیکٹیڈ حکمران پھولے نہیں سما رہے ہیں۔اس کے بعد وزیر اعظم نے قوم کو اعداد و شمار کے کورکھ دھندھوں میں الجھانے کی حتی الوسع کوشش کی ۔ان کے مطابق 1971میں پاکستان کا قرضہ30،ارب سے چھ ہزار ارب روپے پر پہنچ گیا۔بقیہ ریکارڈ کو اگنور کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 2008میں قرضہ گذشتہ چالیس سالوں سے بڑھ کر چھ ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا۔اس وقت تو تمہارا گاڈ فادر مقتدر تھا۔

موجودہ حکومت خود اپنے ہاتھوں سے ملک کی تباہی میں ہمہ وقت مصروف ہے اور خائف حزب اختلاف سے ہے۔ اور کہہ یہ رہے ہیں کہ وہ این آر او مانگ رہے ہیںَکنٹینر سرکار حزبِ اختلاف کو بھی اپنی ماضی کی سڑی ہوئی سیاست کے تحت کنٹینر دینے کی باتیں کرتی کچھ ملوک نہیں لگتی ہے۔جو این آٖر او اپنے بچاؤ کے لئے کر نا چاہ رہی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ تھوڑا سا ہمیں ڈرائیں گے تو ہم انہیں این آر او نہیں دیں گے ہم سمجھتے ہیں حزب،ِ اختلاف بھر پور وار کرکے ڈرائے گی توکہ پی ٹی آئی این آر او کی فرمائش کرنا ہی بھول جائے۔وزیرِ اعظم بن جانے کہ باوجود کنٹنروں والی زبان’’ہز ماسٹرز وائس‘‘نے بھی نہیں بدلوائی۔ دھمکیاں تو ایسے لگا ر ہی ہے جیسے اوپر والے موصوف کے لئے ہمیشہ ہی اقتدار کی کرسی سے چمٹے رہیں گے اور ان پر سایہ فگن رہیں گے۔موجودہ حکومت کے کرتوتوں سے روپے کی قدر گر جانے کے بعد موصوف فرماتے ہیں کہ اگر روپے کی قدر گر گئی تو گبھرانے کی ضرورت نہیں جب آپ کرپٹ قیادت کو برداشت کرتے ہیں تو قوم کو باالخصوص عوام کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، جو ہم سمجھتے ہیں وہ کر رہی ہے۔

ان کی گندی گورنس نے ملک کی معیشت کو کھڈے لائین لگا دیا ہے۔اور دعوے افلا طونی کر رہی ہے۔ڈالر آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔درآمدات روز بروز گھٹتی جا رہی ہیں۔ یہ لوگ اپنی خُنس کو سیاسی لوگوں پرجھوٹے الزامات کے تحت اور خاص طوپر بڑے سیاست دانوں سے نکال رہے ہیں ۔ہر جانب سے پیسے کی بھک مانگنے میں کنٹینر مافیہ لگی ہوئی ہے۔ اور جس نے اپنے دفاع کیلئے مرکز اور پنجاب میں دو بد زبان چھوڑے ہوئے ہیں ۔لگتا یوں ہے کہ اگلے چند ماہ میں پی ٹی آئی حکومت اپنے کرتوتوں سے بے قابو ہوکرکٹی پتنگ کی طرح ہچکولے کھا کر زمیں بوس ہو جائے گی۔ کیونکہ ہماراوزیر اعظم کشکول لے کر گھر گھر بھیک کی صدائیں لگاتا پھر رہا ہے اور ملک کے حالات دن بدن خراب کر رہا ہے۔

Shabbir Ahmed

Shabbir Ahmed

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
03333001671
shabbirahmedkarachi@gmail.co