پچھلے چند دنوں سے وزیرِاعظم کے ایسے دِل خوش کُن بیانات سامنے آ رہے تھے جن کی اسلامیانِ پاکستان دل کھول کر تعریف بھی کر رہے تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ”ریاستِ مدینہ” کی طرف پہلا قدم اُٹھا چکے۔ لبرل اور سیکولر حضرات کی شدید تنقید کے باوجود وزیرِاعظم کے بیانات (تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ) دینِ مبیں اور اسلامی معاشرے کے عین مطابق تھے۔ اُنہوں نے بجا طور پر معاشرتی تشخص بحال کرنے کے لیے فرمایا ”انگریزی زبان اور لباس کا استعمال احساسِ کمتری ہے۔ دوسروں کی نقالی کرکے سافٹ امیج پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں سافٹ امیج نہیں پاکستانیت کی ضرورت ہے۔ جسے خود سے شرم آئے، دنیا اُس کی عزت نہیں کرتی”۔ وزیرِاعظم کا قومی غیرتوں سے معمور یہ بیان ہر کسی کے مَن کو بھایا۔بعد ازاں اُنہوں نے بدھ یکم جولائی کو قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”ہمارے خاندانی نظام نے ہمیں بچایا ہوا ہے۔ پاکستان کو جس جانب جانا چاہیے تھا، اُس جانب نہیں گیا۔ پاکستان آج پہلی مرتبہ اسلامی فلاحی ریاست بننے جا رہا ہے جہاں چہتر سال پہلے جانا چاہیے تھا۔ معاشرے کی بنیاد قانون کی حکمرانی ہے، وہی معاشرہ خوشحال ہوا جہاں انصاف ہے”۔
اِدھر وزیرِاعظم کے سرشار کردینے والے بیانات سامنے آرہے تھے اور اُدھربجٹ سیشن کے دوران ہی تقریباََ تمام سیاسی جماعتوں نے Domestic Violence prevention and protection Bill 2021 پاس کر دیا۔ حیرت ہے کہ یہ بِل بجٹ سیشن کے دوران پاس ہوا حالانکہ روایتی طور پر صرف بجٹ پر بحث کی جاتی ہے، کوئی بِل منظور نہیں کیا جاتا۔ سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے بزعمِ خویش رَہنماؤں کی غالب اکثریت کا تعلیم وتعلم سے محض واجبی سا تعلق ہے۔ شاید اِسی لیے اِس بِل کی اُرد و کاپی بھی فراہم نہیں کی گئی کہ کہیں بِل کی اصلیت سامنے نہ آجائے۔ قومی اسمبلی سے خطاب کے دوران وزیرِاعظم نے فرمایا تھا ”ہمارے خاندانی نظام نے ہمیں بچایا ہوا ہے” لیکن یہ بِل مادرپِدر آزاد معاشرے کو جنم دینے والا ہے جس میں سوائے خاندانی نظام کی بربادی کے اور کچھ نہیں۔ اس لیے اِس کا نام ”گھر اُجاڑ یا گھر برباد” بِل ہونا چاہیے۔ وزیرِاعظم نے یہ بھی فرمایا ”پاکستان آج پہلی مرتبہ اسلامی فلاحی ریاست بننے جا رہا ہے”۔ حقیقت مگر یہ اِس بِل کے مندرجات کے حوالے سے بِلاخوفِ تردید کہا جا سکتاہے کہ اِس بِل کی کئی شقوں کااسلامی فلاحی ریاست سے دور کا بھی تعلق نہیں البتہ یہ تہذیبِ مغرب کی طرف پیش قدمی ہے۔ ایک طرف تو وزیرِاعظم کہہ رہے ہیں ” انگریزی زبان اور لباس کا استعمال احساسِ کمتری ہے۔ دوسروں کی نقالی کرکے سافٹ امیج پیدا نہیں کیا جا سکتا” جبکہ دوسری طرف اِس بل کی صورت میں تہذیبِ مغرب کی نقالی کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ریاستِ مدینہ کے داعی وزیرِاعظم کو کیا کسی نے یہ بھی نہیں بتایا کہ آئین کے آرٹیکلز 1,2,2A,31,31A,35 اور آرٹیکل 227 کے مطابق قرآنِ مجید سپریم لاء ہے اور کوئی قانون قرآن کی روح کے خلاف بن ہی نہیں سکتا جبکہ اِس بل کی کئی شقیں فرقانِ حمید سے متصادم ہیں۔ ایسے میں ”اسلامی جمہوریہ پاکستان” میں یہ بِل کیسے پاس ہوگیا؟۔ بَدقسمتی یہ کہ اِس بِل کی منظوری میں تحریکِ انصاف تو شامل تھی ہی، دائیں بازو کی جماعت نوازلیگ اور بائیں بازو کی جماعت پیپلزپارٹی بھی برابر کی حصے دار تھیں۔ فرینڈلی اپوزیشن کے بارے میں اگر کسی کو کوئی شک تھا تو وہ بھی اِس بِل نے دور کردیا۔ اب کہا جا سکتا ہے ”اِس حمام میں سبھی ننگے ہیں”۔
اِس بِل کے مندرجات پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ خاندان کے سربراہ کو مکمل طور پر بے اختیار کر دیا گیا ہے۔ اگر بیٹا، بیٹی یا خاندان کے کسی دوسرے فرد کو یہ محسوس ہو کہ سربراہ نے جذباتی، نفسیاتی یازبانی طور پر اُس کی توہین اور تذلیل کی ہے تو سربراہ کو تین سال تک جیل اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے، گھر سے نکالا جا سکتا ہے اور بازو یا پاؤں میں کَڑا پہنایا جا سکتا ہے۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ فرقانِ حمید اور احادیثِ نبوی ۖکا اِس بارے میں کیا حکم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے اور قرآنِ کریم کی بہت سی آیات میں اولاد پر زور دیا گیا ہے کہ وہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں۔ فرمایا ”اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ سوائے اللہ کے کسی کی بندگی مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو” (سورة البقرہ آیت 83)۔ سورة لقمان میں فرمایا ”میرا اور اپنے وا لدین کا شکر بجا لاؤ”۔سوة الاسراء آیت 23,24 میں ارشاد ہوا ”تیرے پروردگار کا فیصلہ یہ ہے کہ اُس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُنہیں ”اُف” بھی نہ کہنا اور نہ اُنہیں جھڑکنا، دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔ اِن دونوں کے لیے عجز وانکساری کے بازو جھکائے رکھو اور عرض کرتے رہو اے میرے رَب! اِن دونوں پر رحم فرما جیسا کہ اُنہوں نے بچپن میں مجھے پالا تھا” اِس کے علاوہ اور بھی کئی سورتوں میں یہی حکم دیا گیا۔ بہت سی احادیثِ مبارکہ میں بھی والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور اُن کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ آپ ۖ نے فرمایا ”وہ برباد ہوا، برباد ہوا، برباد ہوا۔ کسی صحابی نے عرض کیا :۔ یا رسول اللہ! وہ کون ہے؟۔ آپ ۖنے فرمایا کہ جس نے ماں باپ دونوں یا کسی ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر (اُن کی خدمت کرکے) جنت میں داخل نہ ہوا”۔ حضورِ اکرم ۖ نے والدین کی خدمت کو جہاد سے افضل قرار دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بِن عمر سے روایت ہے کہ ایک صحابی جہاد میں شرکت کی اجازت لینے کے لیے آپۖ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپۖ نے اُس سے دریافت کیا”کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟”۔ اُس نے عرض کیا کہ ہاں زندہ ہیں۔ آپۖ نے فرمایا ”بس اب تم ماں باپ کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو”۔
اِن آیاتِ اور احادیث کی رو سے تووالدین کو اُف تک نہ کہنے کا حکم ہے اور رَبِ لم یزل نے اپنے شکر کے ساتھ والدین کا بھی شکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ یہ بِل ”جیل بھیجنے، جرمانہ کرنے، گھر سے نکالنے اور کڑا پہنانے” کی تگ ودَو میں ہے۔ دینِ مبیں میں تو سربراہ (خواہ وہ گھر کا ہو یا ملک کا) پر بھاری ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں۔ حضورِ اکرمۖ کا فرمان ہے ”تم میں سے ہر ایک راعی ہے جس سے روزِقیامت اُس کی بھیڑوں کا حساب ضرور لیا جائے گا”۔ جبکہ اِس بِل میں تو والدین سے اولاد کی تربیت کے سارے حقوق چھین لیے گئے ہیں۔ ایسے میں قُرآن وحدیث کے احکامات پر کیسے عمل ممکن ہے؟۔ جب ایک بیٹی یا بیٹے کو تہذیبِ مغرب کی نقالی کرتے ہوئے ہر قسم کی اسلامی معاشرتی پابندیوں سے آزاد کر دیا گیا ہے تو پھر روزِ قیامت جواب دہ بھی وہی ہوںگے جنہوں نے افراتفری میں یہ بِل پاس کیا اور اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔
ہم وزیرِاعظم صاحب سے درخواست کرتے ہیں کہ تہذیبِ مغرب کی نقالی کی بجائے اِس بِل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا جائے تاکہ اِس میں سے غیراسلامی شقوں کو نکال کر قابلِ عمل بنایا جا سکے۔ یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ تشدد کی دین اجازت دیتا ہے نہ کوئی تہذیب۔ دینِ مبیں تو جانوروں پر تشدد کی بھی ممانعت کرتا ہے۔ اِس لیے ایسا قانون بنایا جائے جو ظلم وزیادتی کرنے والے لازمۂ انسانیت سے تہی افراد کے لیے لمحۂ فکریہ ہو، ایسا قانون نہیں جوخاندان کا شیرازہ بکھیر کر مادر پدر آزاد معاشرے کو جنم دے۔