وزیر اعظم میاں نواز شریف کی طرف سے پڑھے لکھے اور بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کے لیے قرضہ سکیم کا اجراء ہوا تو ایک عام بے روزگار نوجوان کی طرح مجھے بھی خوشی ہوئی کہ چلو اب پڑھے لکھے لوگ کچھ تو کام کاج کریں گے اور ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری بھی ختم ہو جائیگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو نوجوان ڈگری ہاتھوں میں لیے کبھی کانسٹیبل کے لیے کبھی ڈرائیور کے لیے اور تو اور کبھی نائب قاصد کے لیے روزگار کی آس میں جونا کام بھاگ دوڑ کرتے تھے وہ اب اپنے کاروبار کے مالک بن کر دوسروں کو روزگار مہیا کرنے کا سبب بنیں گے مگر سوشل میڈیا سمیت الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر چلنے والے مختلف پروگراموں نے میری تمام امیدوں پر پانی پھر دیا اور اس بات کا ذکر جب میں نے اپنے ایک پولیس افسر دوست سے کیا تو اس نے مجھے کچھ بتانے کی بجائے جیل میں بند ایک بہت بڑے فراڈیے سے میری ملاقات کرواتے ہوئے کہا کہ صرف اسکی باتیں غور سے سننا بعد میں سب کچھ تم سمجھ جائو گے۔
جیل میں اس مہا فراڈیے کی سنائی ہوئی سب باتیں سن کر میں حیران رہ گیا کہ کیسے لوگ ان بے روزگاروں سے فراڈ کرکے لاکھوں اور کروڑوں روپے سمیٹ لیتے ہیں اور سادہ لوح لوگوں کو محسوس بھی نہیں ہوتا ان سے کس طرح فراڈ کیا گیا میں اپنے پڑھنے والوں کی دلچسپی کی خاطر اس فراڈیے کی سنائی ہوئی لمبی کہانی کو مختصر تحریر کیے دیتا ہوں۔ آج سے تقریبا 20 سال قبل یہ ان دنوں کی بات ہے جب ٹیلی ویژن اتنا عام نہیں ہوتا تھا اور اخبارات پر ہی عوام کا دارومدار ہوا کرتا تھا جس طرح آجکل نوجوان بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ ہیں اس وقت بھی بے روزگاری اور حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کی کمی نہیں تھی اور ان بے روزگاروں سے فراڈیے قسم کے لوگ بڑی ہی آسانی سے ایک بار نہیں بلکہ بار بار ہاتھ کر جاتے تھے جس طرح آجکل بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کو مختلف سکیموں کا لالی پاپ دیکر بیوقوف بنایا جا رہا ہے اس وقت بھی اخبار میں اشتہار کے زریعے عوام کو بیوقوف بنایا جاتا تھا فرق صرف اتنا ہوا ہے کہ پہلے دور اتنا تیز نہیں تھا۔
جیسا کہ آجکل ہے کہ ہر لڑکے کے ہاتھ میں موبائل، انٹرنیٹ اور کریڈٹ کارڈ کی سہولت موجود ہے پہلے لاکھوں اور کروڑوں لوٹ لیے جاتے تھے آجکل وہی کام کروڑوں اور اربوں میں ہو رہا ہے سادہ لوح افراد کو لوٹنے کے مختلف طریقے ہر دور میں آزمائے جاتے رہے اور چونکہ فراڈ کرنے والے ماہر اور تجربہ کار ہوتے ہیں اس لیے وہ بے روزگار عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ایسے ایسے طریقے ایجاد کر کے انہیں لوٹتے ہیں کہ لٹنے والے کو سمجھ ہی نہیں آتی ہے اور بعض اوقات تو لوٹنے والے کو بھی سمجھ نہیں آتی کہ اتنا پیسہ آخر جمع کیسے ہو گیا جس طرح آجکل حکومت بے روزگاروں کو قرضہ دینے کے بہانے 100,100 روپے اکٹھے کر رہی ہے بظاہر یہ معمولی رقم ہے مگر آج سے 20 سال قبل بھی جب فراڈیے قسم کے افراد اخبار میں نوکری کے اشتہار دیکر بے روزگار نوجوانوں سے 2 روپے کے ڈاک ٹکٹ طلب کیا کرتے تھے تو وہ بھی لاکھوں روپے کی دیہاڑی لگا لیا کرتے تھے اور جو 100 روپے یا اس سے زیادہ کے بانڈ منگوایا کرتے تھے وہ کروڑوں روپے کما لیا کرتے تھے۔
Population
اسی طرح آج ملک کی آبادی 20 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور اس وقت ملک میں تقریبا 8 کروڑ بے روزگار ہونگے مگر ہم حکومتی اعداد و شمار یعنی 18 کروڑ کے مطابق ہی اگر حساب کتاب کرتے ہیں تو وزیر اعظم کی طرف سے 5 بلین روپے کے قرض کی صورتحال کچھ یوں بنے گی 5 بلین 5 ارب کے برابر ہوتے ہیں جو ایک لاکھ افراد کو دیے جائیں گے اگر آپ 5 بلین کو ایک لاکھ پر تقسیم کریں تو اس طرح ہر بے روزگار فرد کو 50 ہزار روپے ملیں گے اور وزیر اعظم صاحب کا فرمان ہے کہ ایک لاکھ سے 20 لاکھ تک قرضے دیے جائیں گے اگر 20,20 لاکھ قرض لینے والے صرف 2500 افراد آجائیں تو پورے 5 بلین ان 2500 سو افراد میں تقسیم ہو جائیں گے اس میں باقی باتیں تو بعد کی ہیں کہ یہ قرضہ کس کو ملے گا آیا 2500 سو افراد کہیں حکومت کے اپنے ہی چہیتے تو نہیں ہیں مگر سب سے اہم بات یہاں پر وہی پرانی آجاتی ہے کہ بے روزگاروں سے روزگار کے لالچ میں 2,2 روپے کے ڈاک ٹکٹ اکٹھے کرلیے جائیں اور بعد میں انہیں کسی ڈاک خانہ میں کچھ پیسوں کے عوض تبدیل کرکے پیسے بٹورے جائیں بلکل اسی طرح ملک کے تقریبا 5 کروڑ لوگ قرضہ کے لالچ میں 100 روپے فی درخواست کے ساتھ جمع کرواتے ہیں تو 5 بلین حکومت کے پاس جمع ہو جائے گا اگر حکومت کے مشیر تھوڑی بہت اور سمجھداری سے کام لیتے اور قرضہ کے حصول کیلیے ضمانت کی شرائط بلکل آسان کر دیتے تو حکومت کو اسی مد میں اربوں روپے اکٹھے ہو جانے تھے۔
جن میں سے آدھے تقسیم بھی کر دیے جاتے تو بھی 5 بلین سے زائد حکومت کوبچ جانے تھے نہ کسی کی انگلی اٹھنی تھی اور نہ کسی نے فراڈ کا الزام لگانا تھا اور ہر طرف سے حکومت کی واہ واہ ہونی تھی کہ اس نے بغیر کسی گارنٹی کے بے روزگاروں میں اربوں روپے بانٹ دیے اور اسی میں سے بیشک ایک ارب روپیہ میڈیا میں تقسیم کر دیتے جس نے دن رات آپکے ہی گن گانے تھے۔