تحریر :۔ انجم صحرائی پشاور کا سانحہ جہاں پوری قوم کو سو گوار کر گیا وہاں لگتا ہے کہ بہتے معصوم لہو کے صدقے پاکستان کی سیاسی قیادت کو بھی یہ احساس دلا یا کہ انہیں بھی مل بیٹھنا چا ہیئے۔ سو وزیر اعظم پاکستان نے ملک عزیز کے وسیع تر مفاد میں قومی پا ر لیما نی جما عتوں کا اجلاس طلب کیا اور اس فوری طلب کئے گئے اجلاس میں سبھی قا ئدین قو می وسیع تر مفاد کے تنا ظر میں شریک ہو ئے ۔ یہاں تک کہ عمران خان بھی آ ئے اور ان کے آ نے اور وزیر اعظم سے ہا تھ ملا نے کو قوم کے باشعور میڈیا نے اتنا بریک تھرو کیا کہ قوم سب دکھ بھول گئی۔
سا ری ادا سیاں خو شیوں میں تبد یل ہو گئیں اور قو می پا ر لیمانی جما عتوں کا یہ اجلاس وزیراعظم کی اس بات پر کہ اگر” مجھے بچوں کی عیادت نہ کر نا ہو تی تو میں بھی کنٹینر میں چلا جا تا ” شر کا ئے اجلاس کے بھر پور قہقہہ پہ ختم ہوا ۔اور یہاں یہ بھی ایک بڑی خبر دی گئی کہ تمام پا رلیمانی جما عتوں کے نما ئندوں پرمشتمل ایک پا رلیما نی کمیٹی قائم کی جا ئے گی جو وزیر داخلہ کی نگرا نی میں کام کرے گی اور یہ کمیٹی دہشت گر دی کے خلاف ایک قومی ایکشن پلان تیار کرے گی ۔ مجوازہ کمیٹی اپنا یہ تیار کردہ پلان قومی سیا سی قیادت کو پیش کرے گی اور قو می سیا سی قیا دت کی منظوری سے ہی یہ ایکشن پلان قا بل عمل ہو گا۔
ہمیں مسکرانے اور قہقہے لگا نے پر کو ئی اعتراض نہیں کہ زند گی زندہ دلی کا نام ہے اور مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں مگر اتنا عرض کر نے کی جسارت ضرور کریں گے کہ حضور ابھی تو آ رمی پبلک سکول پشا ور کے درو دیوار پہ لگے سفاک دہشت گردی کا نشا نہ بننے والے معصوم بچوں کے بہتے لہو کے چھینٹے بھی خشک نہیں ہو ئے یا کہہ لیں کہ ابھی تو کفن بھی میلا نہیں ہوا یا پھر کہہ لیں کہ ابھی تو غم زدہ گھروں میں چو لہے بھی نہیں جلے کہ آپ کے قہقہے گو نجنے لگے اقتدار کی غلام گر دشوں میں۔ کیا بتا ئیں گے کہ آپ سب مقتدرین نے دہشت گر دی کے خلاف کون سا ایسا تیر مار لیا تھا کہ آپ سب صرف چو بیس گھنٹے پہلے ہو نے والے اس عظیم قو می سا نحہ کو بھلابیٹھے ۔ عین اس وقت جب غم و اندوہ میں ڈو بی ساری قوم سڑ کوں پہ تھی ۔پا کستان سارا بند تھا ہر لب نو حہ کناں اور آ نکھ اشک بار تھی ۔ اٹھارہ کروڑ عوام اپنے بچوں کے لا شوں کا ما تم کر رہی تھی قو می سیا ست دا نوں کی پہ مسکرا ہٹیں معاف کیجیئے گا ہمیں تو اچھی نہیں لگیں۔
ایک اور بات کہ کیا یہ عجب اور غضب انکشاف نہیں کہ ہما ری قو می قیا دت بغیر کسی ایکشن پلان کے دہشت گر دی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے مسلم لیگ ن کے اقتدار کو دو سال گذرنے والے ہیں پرویز خٹک کو بھی پختون خواہ کے مالک بنے اتنا ہی عر صہ گذر گیا ۔ عمران خان چا ر ماہ سے دھا ندلی کے خلاف کینٹینر پر چڑ ھے ہو ئے ہیں ۔پا ک فوج دہشت گردوں کے خلاف بر سر پیکار ہے ۔ مگر حکومت کے پا س کو ئی ایکشن پلان ہی نہیں دہشت گر دی کے خلاف ، کو ئی لا ئن آف ایکشن ہی نہیں ان معصوم سیا ستدا نوں کے پا س دہشت گر د اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ ایکشن پلان کیوں نہ بنا کو ئی ہے جواب دینے والا اور کو ئی ہے جواب لینے والا پشاور اٹیک پہلا حاد ثہ تو نہیں اس سے پہلے بھی بیسیوں سا نحات ہو ئے اور سبھی میں معصوم لوگ دہشت گردوں کا نشا نہ بنے۔ دور کی بات نہیں ابھی پچھلے دنوں واہگہ بارڈر پر کتنی قیا مت ڈھا ئی تھی ان دہشت گردوں نے ۔کتنے معصوم لو گوں کے اعضا اچھا لے تھے ان بد بختوں نے بے گنا ہوں کے۔
اس سا نحے کے بعد بھی کسی کو خیال نہیں آ یا کہ بھئی حکو مت کی بھی کو ئی لا ئن آ ف ایکشن ہو نے چا ہیئے ۔نہ حکو مت کے کسی لا ڈلے منے کو خیال آ یا اور نہ اپو زیشن کے کسی قو می دماغ کو اس کی ضرورت محسوس ہو ئی کیوں ؟ کیا ہے اس کا جواب کسی کے پاس ۔ سا نحہ پشا ور میں 132 بچوں سمیت 141 افراد شہید ہو ئے ۔سفاک دہشت گردوں نے کلمہ پڑھا کے قطار میں لٹا کے معصوم بچوں کے سروں میں گو لیاں ماریں ۔ سکول پرنسپل اور عورتوں کو شہید کیا پتہ نہیں یہ کو نسا اسلام ہے جس کے یہ دہشت گرد پیرو کار ہیں اسلام نے تو جنگ و جدل میں بھی بچوں ، عورتوں اور بو ڑھوں کو امان دی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ سکول میں بچوں ، خواتین اور بو ڑھوں کو ما رنے والے ان دہشت گردوں کو وہ کلمہ بھی نہیں آتا ہو گا جسے وہ بچوں کے سروں میں گو لیاں ما رتے ہو ئے پڑ ھنے کی تبلیغ کر رہے تھے۔
Taliban
طالبان کے یہ مجا ہد ین کو نسے اسلام کا جہاد کر رہے ہیں سمجھ میں نہیں آ تا ۔ اسلا می فلسفہ جہاد میں تو بچوں ، عورتوں اور بو ڑھوں کو امن دینے کا حکم آ یا ہے اور جنہیں اللہ کریم امن دے دے ۔ جسے اللہ کا نبی امان دے دے پھر وہ ظالم کیسے ہو سکتا ہے مسلمان ۔جو بچوں ، عورتوں اور بو ڑھوں کو تہہ تیغ کر کے ان کے گلے کاٹ کے اور ان کے سروں میں گو لیاں مار کے اسلام زندہ باد کے نعرے لگا نے کا حقدار بنے ۔اب یہ بھی یک طر فہ تما شہ ہے کہ پشاور اٹیک کے ذمہ دار طا لبان نے اس واقعہ کی ذ مہ داری قبول کر نے کا اعلان کر دیا اور یہ وجہ بھی بتا دی کہ انہوں نے یہ حملہ کیوں کیا ۔ مگر دکھ اور افسو س یہ ہے کہ مقدس آ ئین کے حروف کے پڑ ھتے ہو ئے ملک ، قوم اور آ ئین کے تحفظ کا حلف ہٹانے والے ابھی تک یہ اعتراف نہیں کر سکے کہ وہ آئین کی عملداری قا ئم کر تے ہو ئے پا کستان اور پا کستانی قوم کو تحفظ دینے میں نا کام رہے ہیں
قو می سیا ستدا نوں کے اکٹھ ہو نے پر قوم یہ آ س لگا ئے بیٹھی تھی کہ سچ بو لنے والے سیا ستدان آج سچ بو لیں گے سبھی کے سر شر مند گی سے جھکیں ہوں گے سبھی اس سا نحہ کی ذ مہ داری لیتے ہو ئے مستعفی ہو نے اعلان کریں گے مگر یہ تو کچھ بھی نہ ہوا ۔ نہ پیشکش اور نہ یہ مطا لبہ نہ کسی نے دیا اور نہ کسی نے کیاوہاں تو وہ بھی خا موش رہا جو بات بات پر مغربی مملک کے سیا ستدا نوں کی مثا لیں دے دے کر میاں برادران سے استعفے طلب کر تا ہے ۔ پشا ور میں ہو نے والی اس قو می پا ر لیما نی جما عتوں کی میٹنگ میں سبھی مو جود تھے سوا ئے شیخ رشید کے ۔ اس کی غیر حا ضری بھی کسی کو محسوس نہیں ہو ئی شا ئد کسی کو وہ یاد بھی نہیں رہا ہو گا کہ شیخ رشید بھی قو می اسمبلی میں ایک پا رلیمانی لیڈر ہے وہ دیوار نہ سہی ایک اینٹ تو ہے او ر اینٹ کی جگہ دیوار میں کو ئی بھی پو ری نہیں کر سکتا
قو می یکجہتی کی اس میٹنگ میں اگر میاں صاحب شیخ رشید کو بھی بلا لیتے تو شا ئد قومی یکجہتی کا پیغام زیادہ مکمل ہو تا ۔ پا کستان کے دیگر شہروں قصبوں اور دیہا توں کی طرح لیہ بھی آج بڑا سو گوار رہا ۔پو رے ضلع میں سینکڑوں غا ئبا نہ نماز جنازہ ہو ئے اور بیسیوں احتجا جی ریلیاں نکا لی گئیں تمام ریلیوں میں دہشت گر دی اور دہشت گردوں کے خلاف فلک شگاف نعرے گو نجتے رہے دہشت گردی کے خلاف بر سر پیکار پاک فوج کے ساتھ عوامی ظہار یکجہتی بھی شا ندار رہی میں نے بھی عوامی فلا حی ادارے کی طرف سے نکا لی جا نے والی ایک ریلی میں شر کت کی ریلی کا آ غاز ہوا تو کا مریڈ صدیق نے جذ بات میں کپککپا تے ہو نٹوں سے پا کستان زندہ باد ، دہشت گر دی مردہ باد اور پا ک فوج زندہ باد کے نعرے لگوانے شروع کر دئے ابھی اس نے چند دفعہ ہی نعرے لگا ئے تھے کہ ایک دا نشور سے ضبط نہ ہو سکا بو لے تعزیتی ریلی ہے نعرے نہ لگا ئے جا ئیں اور فوج کے نعرے تو با لکل نہ لگا ئے جا ئیں۔
میں انہیں بڑی تہذ یب سے پو چھا کیوں ؟تو ان سے کو ئی جواب تو نہ بن پڑا مگر جس انداز سے انہوں نے مجھے دیکھا اس پر مجھے کہنا پڑا کہ یار بس کرو ملک اور قوم نے کا فی بر داشت کر لیا ہے ایسا نہ ہو کہ اب صبر کا پیما نہ لبریز ہو جا ئے ۔ آج تو معاف کردو ۔ میری نظر میں اس قوم کو انتشارو افتراق میں مبتلا کرنے والے دو مکا تب فکر کا بڑا کردار ہے ایک وہ جنہوں نے دین و مذ ہب کو بنیاد بنا کر قوم کو فر قہ واریت کی آگ میں دھکیلا اور دوسرا یہ بزعم خود فلا سفر طبقہ جو قو می اداروں اور عوام میں خلیج پیدا کر کے اپنی قیمت بڑھا نے کے چکروں میں ہو تا ہے یہ طبقہ انگریز کے پروردہ جا گیراداروں کے ہما چو ں پہ بیٹھ کر اپنے فلسفے کی را کھ اڑاتا ہے اسے کرپٹ استاد ، کرپٹ سیا ستدان ، کرپٹ پٹواری ، کر پٹ ڈاکٹر ور کرپٹ پو لیس کبھی نظر نہیں آ تی لیکن یہ ہر وقت پاک فوج پہ پھبتیاں کسنے کو اپنی فکری صلا حیت قرار دیتا ہے۔
یہ ٹکے سیر بکنے والے بز عم خود دا نشور بھی اس قوم کے لئے ایک نا سور سے کم نہیں ۔ یہ وہ ذہنی دہشت گرد ہیں جنہیں پا کستان اور پا کستان بنا نے والوں مین عیب کے سوا کچھ نظر نہیں آتا یہ الگ بات کہ ان کی آنکھ کے شہتیر اتنے بڑے اور سیاہ ہیں کہ ان کی تا ریخ پڑھو گے تو دھل جا ئے گے۔ اور یہ تا ریخ پھر کبھی سہی۔۔ ۔۔۔