السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ! بعد از سلام عرض یہ ہے کہ مورخہ اکیس ستمبر کی شب آپ نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے نوجوانوں کی فلاح و بہبود اور ان کو اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر تعمیر وطن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے سلسلہ میں بیس ارب کی خطیر لاگت پر مشتمل چھ مختلف سکیموں کا اعلان کیا۔
جن میں سمال بزنس قرضہ پروگرام، یوتھ ٹرینگ پروگرام، لیب ٹاپ پروگرام، بلاسود قرضوں کا پروگرام، ٹیوشن فیس پروگرام اور اسکلز ڈویلپمنٹ پروگرام شامل ہیں۔ آپ کی جانب سے لیا جانے والایہ امر بہرحال خوش آئند ہے۔ کیوں کہ ملک پاک میں سابقہ حکومتوں نے نوجوانوں بالخصوص طلبہ کے مسائل کی بڑھتی شرح کو روکنے کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔
راقم چونکہ خود ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والا طالب علم ہے اس لیے طلبہ کی فلاح و بہبود کے نام پر شروع کیے جانے والے تمام اداروں کی ٹھوکریں کھا چکا ہے۔ اس طرح کے پروگرامات کا بڑی شد و مد کے ساتھ آغاز تو کیا جاتا ہے مگر افسوس اس امر پر ہے کہ یہ تمام تر پروگرامات کرپشن، لوٹ مار اور اقرباپروری کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اسی پس منظر میں راقم آپ کی جانب سے اعلان کیے جانے والے پروگرامات سے متعلق چند تجاویز دینا چاہتا ہے تاکہ ان پروگرامات کو عملی شکل دیتے وقت شفافیت کا عنصر اظہر من الشمس ہو جائے۔
ان تمام پروگرامات سے کرپشن ،لوٹ مار اور اقربا پروری کو دور رکھنے کے لیے مستحق نوجوانوں کے انتخاب کی واضح پالیسی وضع کی جائے۔ان پروگرامات سے استفادہ کرنے والوں کے لیے آسان شرائط لگائی جائیں تا کہ ان سے غریب اور متوسط طبقے کے نوجوان براہ راست فائدہ اٹھا سکیں۔
راقم کا تجربہ ہے کہ تعلیم کے نام پر کام کرنے والے تمام سرکاری و غیر سرکاری ادارے طلبہ کی اعانت کے نام پر بڑی سطح پر چندے جمع تو کرتے ہیں مگر ان کی تقسیم میں کڑی شرائط لگا دیتے ہیں جن سے غریب و متوسط طلبہ کا مستفید ہونا محال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ان پروگرامات سے متعلق کام کرنے والے تمام سیاستدانوں اور حکومتی اہلکاروں کے محاسبہ کا بھی اہتمام کیا جائے۔
Lab Tops
اسی طرح ٹیوشن فیس اور لیب ٹاپ سے متعلق دو علیحدہ تجاویز ضبط تحریر کرتا ہوں۔اول یہ کہ ٹیوشن فیس کی فراہمی میں میرٹ سمیت تمام کڑی شرائط عائد نہ کی جائیں کیوں کہ سخت شرائط کی موجودگی میں متوسط طبقے کے طلبہ کسی بھی طور اس پروگرام سے مستفید نہیں ہو سکتے بلکہ اس پروگرام سے سرمایہ دار اور معاشرے کے اعلیٰ طبقوں کے لوگ ہی صرف فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ جھوٹ اور چور راستہ بند کرنے کے لیے حکومت خفیہ یا اعلانیہ طور پر ہر درخواست گذار کا دیانت داری کے ساتھ اپنے طور پر جائزہ لے۔
دوسری تجویز یہ ہے کہ اس امر میں کوئی تردد نہیں کہ موجودہ دور جدت کے حوالہ سے عروج کی انتہائی بلندیوں کو چھو رہاہے اور آج نئی دنیا کے ساتھ قدم ملانے کے لیے لازم ہے کہ جدید ٹیکنالوجی سے ہر ممکن فائدہ حاصل کیا جائے۔ مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر مسلم ہے کہ ہمارے معاشرے میں تیزی کے ساتھ پھیلتے بے پناہ معاشرتی مسائل میں اضافہ اسی ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہو رہا ہے کیوں کہ سوشل میڈیا اس قدر عام ہو چکا ہے کہ کم سن بچے بھی اس میں اپنے شب و روز کے قیمتی لمحات اور اپنی صلاحیتیں ضائع کر رہے ہیں اور دن بدن اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ لیب ٹاپ کی تقسیم سے قبل ان تمام مسائل پر ماہرین نفسیات و تعلیم سے ضرور مشاورت کی جانی چاہیے اور ان کی جانب سے طے کردہ پالیسی کے مطابق اس پروگرام پر عمل کیا جانا چاہیے۔
آخر میں گزارش ہے کہ آپ کے بیان کردہ پروگرامات سے تعلیم و شعور کے فروغ کی خواہش کا اظہار واضح نظر آتا ہے مگر ہمارا مسئلہ صرف تعلیم یا شرح خواندگی نہیں بلکہ شاید تعلیم سے زیادہ تربیت بھی ہے اور اسی کے ساتھ تعلیمی اداروں میں سیاست کا اثر و رسوخ اس حد تک پھیل چکا ہے کہ ان اداروں کا بہتر طور پر کام کرنا محال ہو چکا ہے۔
اگر آپ ملک میں باصلاحیت و ماہر قیادت کے حصول کے خواہش مند ہیں تو صرف ان مختلف اسکیموں کے اعلانات کے ذریعے تعلیمی سہولیات کی فراہمی پر اکتفا نہ کریں بلکہ تمام سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں سے سیاسی مداخلت کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں نیز علوم و فنون کے ساتھ اخلاقیات، انسانی قدروں کی جانب رغبت کے لیے بھی قانون سازی کریں بصورت دیگر تمام تر اقدامات بے فائدہ وبے مقصد رہیں گے۔ امید ہے کہ آپ راقم کی تجاویز پر ضرور غور فرمائیں گے۔