وزیر اعظم کے بھائی میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے خاص طور پر بلوچستان میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حالات خراب کئے جا رہے ہیں میاں صاحب نے تو اس کا آج انکشاف کیا ہے لیکن بہت سے باخبر لوگ۔محب ِ وطن پاکستانی اور عوام کی اکثریت کو اس بات کا بخوبی پتہ تھا یہ سب کے سب علم ِ نجوم جانتے ہیںنہ ان کو دلوں کے بھید معلوم ہے سیدھی سی بات یہ ہے کہ بھارت نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور انڈیا میں کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو صدر مسلمان ہو یا وزیر اعظم سکھ یا پھر ہندو اس نے پاکستان کو ہمیشہ اپنی تعصب کی عینک سے ہی دیکھا ہے ہمارے بیشتر رہنما یہ تو اکثر کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کچھ پاکستان دشمن طاقتیں ہمارے ملک کا امن بربادکرنا چاہتی ہیں ان سے پوری قوم کو خبرداررہنے کی ضرورت ہے لیکن کھل کر بھارت کا نام لینے سے وہ گھبراتے ہیں یا شرماتے ہیں ۔کیا یہ بھی عجیب بات نہیں کہ ہم اپنے ظاہری دشمن کا نام لینے سے کنی کتراتے ہیں وہ دشمن جس نے پاکستان کو دو لخت کرڈالا۔
Indira Gandhi
وہ دشمن ملک جس وزیر ِ اعظم اندارا گاندھی نے سقوط ِ ڈھاکہ کے وقت بڑے غرور سے کہا تھا ”ہم نے دو مسلمانوں کا دو قومی نظریہ سمندر میں ڈبو ڈالا”۔۔۔۔وہ دشمن ملک جو آج بھی اپنے دریائوںپر ڈیم بناکر عالمی قوانین کا تمسخر اڑارہاہے تاکہ پاکستان کو بنجر بنا ڈالے ۔۔۔یہ بھی بھارت کی دشمنی کا ہی ایک انداز ہے کہ جب اس کے ندی نالوںمیں طغیانی آجاتی ہے تو وہ پاکستانی دریائوںمیں پانی چھوڑ دیتا ہے جس سے پاکستان میں سیلاب آ جانے سے قیامت ِ صغریٰ بپاہو جاتی ہے۔۔۔یہ وہی دشمن ملک ہے جس نے آج تک اقوام ِ متحدہ کی قراردادوںکا احترام نہیں کیاوادی ٔ کشمیر میں ظلم وبربریت کا بازار گرم ہے اور ایک لاکھ کشمیری مسلمان اپنے خطہ کی آزادی کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں مگر بھارت نے ان کو حق ِخودارادیت دینے سے انکار کردیاہے یہ سب حقائق تاریخ کے سینے پر رستے ہوئے ناسورکی مانندہیں۔۔۔یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت میں کوئی حادثہ، دہشت گردی یا کوئی خوفناک واقعہ رونما ہو جائے بھارتی نیتا فٹا فٹ پاکستان پر الزام لگانا شاید اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں ان تمام تر حقائق کی روشنی میں یہ عجیب بات نہیں ہمارے حکمران بھارت سے دوستی کیلئے مرے جارہے ہیںبھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی باتیں ہورہی ہیں اور ہمارے کچھ نام نہاد دانشور پاک و ہند کی تقسیم کے ہی خلاف ہیں اور وہ بارڈر کو ایک لکیر کا درجہ دیتے ہیں ان کا خیال ہے کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان یہ لکیرکا فرق بھی ختم ہو جانا چاہیے ان لوگوں کو شایدیہ معلوم نہیں کہ پاکستان کے قیام کیلئے کتنی قربانیاں دی گئی تھیںکتنے ہزار لوگوں کو گا جرمولی کی طرح کاٹ دیا گیا کتنی عفت مآب بیٹیوں کی عصمت کو تار تار کیا گیا۔ بلوائیوںنے کمسن بچوں کے لاشوںکو نیزے کی انی یا کرپان کی نوک پرلہراتے پھرتے۔ رقص کیا۔۔۔کاش قیام ِ پاکستا ن کے وقت ایک نئے ملک میں آنے کا تصور لئے جن بچے، بوڑھوں ،جوانوں ،بیٹیوں اور بہنوں پاکستانیوںکو بے رحمی سے ٹوٹے ٹوٹے کیا گیا امرتسرسے آنے والی اس لہولہان ٹرین کو اسی حالت میں لاہور کے عجائب گھر رکھدیا جاتاتو آج کی نسل ،نام نہاد دانشوروںاوربھارت کی محبت میں راگ الاپنے والوںکو بخوبی علم ہو جاتا کہ پاکستان کیسے بنا؟۔۔۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان کے حالات خراب کرنے،طے شدہ امورکومتنازعہ بنانے اور قومی اتفاق رائے میں رخنہ ڈالنے میں ہمارے پڑوسی ملک کا بہت بڑا کردارہے شنیدہے کہ کالاباغ ڈیم پر چاروں صوبوںمیں اتفاق و مفاہمت نہ ہونے میں بھی بھارت کا کلیدی کردارہے یہاں تک کہا جارہا ہے کہ کالا باغ ڈیم کے ایشوپر بھارت کئی پاکستانی سیاستدانوںکی مالی معاونت کر رہاہے۔
اس صورت ِ حال میں وزیر ِ اعظم کے بھائی میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے خاص طور پر بلوچستان میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حالات خراب کئے جارہے ہیں میاں شہباز شریف کے ان حقائق نے کچھ نئے سوالات کو جنم دیاہے ۔۔۔کہ موجودہ پاکستانی حکومت نے اس در اندازی پر آج تک بھارتی حکومت سے باقاعدہ احتجاج کیوں نہیں کیا؟ ۔۔ دوسرا حالات بہتر بنانے کیلئے پاکستانی حکومت نے کیا اقدامات کئے ہیں اس سے قوم کو باخبر کیا جائے۔تیسراپاکستان میں انتہا پسندی و دہشت گردی میں جو قوتیں ملوث ہیں یا ہمارے ملک میں جو انکے آلہ ٔ کارہیں ان کے بارے کیاحکمت ِ عملی طے کی گئی ہے اس پر ٹھنڈے دل و دماغ سے ٹھوس منصوبہ بندی کئے بغیر پائیدار امن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا یہ سارے حقائق بتانے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم لٹھ پکڑ کر انڈیاکی درگت بنا ڈالیں حکومت اور صرف پاکستان کی حکومت کو یہ حق ہے بلکہ اس کا فرض ہے کہ پاکستان کے مفادات کیلئے جو ہو سکے کرے تمام قو می معاملات میں قوم کو اعتماد میں لینے کی روایت ڈالنی چاہیے۔ایک اور بات یہ ہے کہ ہم پاکستانی سب ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن لیکن باوقار تعلقات برابری کی بنیادپر چاہتے ہیں ہمارا مؤقف یہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام ممالک ہماری آزادی وخود مختاری کااحترام کریں پاکستان دوسروںسے متعلق ایسے ہی جذبات رکھتاہے۔قوم کو آج یہ طے کرناہوگا کہ ہم پاکستان کو آگ کا دریا نہیں بننے دینگے اس کی خاطر ہم قربانی کیلئے خودکو تیارکرنے کی ضرورت ہے۔