تحریر : سید انور محمود وزیر اعظم نواز شریف کے بہت سارئے کارناموں میں 28 مارچ کی شام ایک نئے کارنامے کا اضافہ دیکھنے کو ملا جب انہوں نے قوم سے خطاب کیا اور قوم کے قیمتی وقت کو بچاتے ہوئے گیارہ منٹ سےبھی کم وقت میں 27 مارچ کولاہورمیں ہونے والی دہشتگردی ، راولپنڈی سے اسلام آباد تک کی غنڈہ گردی اور اربوں روپے کی املاک کی تباہی کے ساتھ ساتھ اپنے کارناموں، مخالفوں کی کوتاہیوں اور دہشتگردوں کو بھی انتباہ کیا۔ دہشتگردوں کو بھی انتباہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دہشتگرد جان لیں ناکامی اور نامرادی ان کا مقدر ہے ۔ اسی گیارہ منٹ میں وزیر اعظم نے غلط بیانی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے، انہوں اپنی تقریر میں فرمایا کہ ‘‘ہم نے 2013ء میں حکومت سنبھالنے کے بعد پہلی بار دہشتگردی جیسے مسئلہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے حل کرنے کے لئے آپریشن شروع کیا۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کے تحت پولیس اور افواج نے خون سے مہم کو پروان چڑھایا’’۔ محترم وزیر اعظم صاحب لگتا ہے آپ پوری قوم کو بےوقوف سمجھ رہے ہیں، اس بات سے پوری قوم واقف کہ آپ تو خود طالبان دہشتگردوں کی چھاوں میں انتخابات جیت کر وزیراعظم کی کرسی تک پہنچے ہیں۔دوسری طرف لاہور کے گلشن اقبال پارک میں دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم تنظیم جماعت الاحرارکے ترجمان احسان اللہ احسان کا کہنا تھا کہ ‘‘ان کا نشانہ عیسائی تھے، ہم وزیراعظم نواز شریف کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ہم لاہور میں داخل ہو چکے ہیں، وہ کچھ بھی کر لیں لیکن ہمیں روک نہیں سکتے اور ہمارے خودکش حملہ آور اس طرح کے دھماکے کرتے رہیں گے’’۔
طالبان کے لفظی معنی کچھ بھی ہوں مگر ہمارئے ملک میں طالبان عام طور پردہشت گردوں کو کہا جاتا ہے، طالبان کے 45سے زائد گروہ ہیں اور ہر گروہ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی قتل و غارت گری کی کسی بڑی مہم کا حصہ رہ چکا ہے اور اس کا اقرار بھی کرچکا ہے، ان گروہ میں سے کوئی عام انسانوں کا قتل عام کررہا ہے تو کوئی فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں مصروف ہے، یہ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، ٹارگیٹ کلنگ، منشیات کی اسمگلنگ، ڈکیتیوں اور دوسرے جرائم میں بھی مصروف ہیں۔ یہ صرف نام کے انسان ہیں خصلتیں سب کی درندوں جیسی ہیں۔
PML N
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 6 جون 2013ء کو جب حکومت کی ابتدا کی تو نواز شریف اور اُنکے وزرا کی شدید خواہش یہ تھی کہ طالبان دہشتگردوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے پہلے ان سے بات چیت کی جائے۔ بڑی کوششوں کے بعد23 جنوری 2014ءسے حکومت اور طالبان کے درمیان شروع ہوئے، دہشتگردی مسلسل ہورہی تھی اورجس وقت وزیراعظم نواز شریف مذکراتی کمیٹی کا اعلان کررہے تھے اُس وقت بھی کراچی کی فضائیں یکے بعد دیگرے ہونیوالے دھماکوں سے گونج رہی تھیں۔ آٹھ جون 2014ء اتوارکی درمیانی شب کو کراچی کےجناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حملہ کیا گیا اور ایک مرتبہ پھر کراچی میں خون بہایا گیا۔
اتوار 15 جون کو افواج پاکستان نے طالبان دہشت گردوں کے خلاف ایک بھرپور آپریشن “ضرب عضب” کا آغاز کیا۔ پاکستانی قوم کو آئی ایس پی آر کے پريس ريليز کے زریعے آپریشن شروع ہونے کی اطلاع ملی، آئی ایس پی آر کے پريس ريليز کےمطابق شمالی وزيرستان ميں حکومتی ہدايت پر باقاعدہ فوجی آپريشن شروع کر ديا گيا ہے۔ نواز شریف جو طالبان دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کے لیے تیار نہیں تھے کراچی ایئرپورٹ پرحملے کے بعد اُنہیں افواج پاکستان کے آپریشن کو قبول کرنا پڑا۔ شمالی وزيرستان ميں باقاعدہ فوجی آپريشن کے بعد دہشت گردوں نے شمالی وزیرستان سے نکل کر ملک کے دوسرئے حصوں خاص طور پر کراچی اور پنجاب کے بڑئے بڑئے شہروں میں اپنے ٹھکانے بنانے شروع کردیے۔
سیاسی تجزیہ نگار مستقل یہ کہتے رہے کہ ہمیں دہشت گردوں سے ہوشیار رہنا چاہیے اور ساری ذمہ داری فوج پر نہیں ڈالنی چاہیے، سول انتظامیہ کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ دہشتگردی میں کافی حد تک کمی آئی ہے لیکن مکمل خاتمہ کب ہوگا اس کے بارئے اس سال کے شروع میں جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ 2016ء پاکستان میں دہشتگردی کے خاتمہ کا سال ہوگا۔ پورئے پاکستان میں یکم جنوری 2016ء سے 20 مارچ تک دہشتگردی کی وجہ سے 93 افراد ہلاک ہوئے اور 210 افراد زخمی ہوئے۔ 27 مارچ کولاہور کے گلشن اقبال پارک میں ہونے والی دہشتگردی اس سال کی سب بڑی دہشتگردی ہے ، جس میں سے 72 افراد ہلاک اور 300 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں، ہلاک ہونے 72 افراد میں 29 بچے شامل ہیں۔
Raheel Sharif
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کور کمانڈرز کانفرنس میں، لاہور میں دہشت گردی کے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے صوبے میں رینجرز کو کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ اطلاع بھی قوم کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے دی ہے۔ فوجی ترجمان کے مطابق رینجرز کو پنجاب میں دہشت گردوں کا صفایا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لاہور میں خودکش دھماکہ سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا لیکن حکومت کی طرف سے ایسی کوئی خبریں نہیں تھیں کہ عوام اپنے غصہ کوقابو میں رکھتے، لیکن پاک فوج کے آجانے اور اسکی موثر کارروائیوں کی وجہ سے حالات قابو میں رہے۔ایک طرف جنرل راحیل شریف نے فوری کارروائی کا حکم دیا تھا جبکہ دوسرئی طرف پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ ٹی وی ٹاک شو میں بیٹھ کر اس بات سے انکار کرتے رہے کہ صوبے میں فوج کو کارروائی کا اختیار دیا گیا ہے۔
ان حالات میں یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ فوج اور سول انتظامیہ ایک پیج پر نہیں ہیں۔ گذشتہ چھ ماہ سے فوج پنجاب میں آپریشن کرنا چاہ رہی تھی لیکن نواز شریف حکومت وہی حرکتیں کررہی تھی جو وہ آپریشن ضرب عضب شروع ہونے سے پہلے کررہی تھی۔یہ ہی وجہ ہے کہ آرمی چیف نے کسی کے حکم نہ ماننے کا حکم دیا ہے اور اس آپریشن کی خود کمانڈ سنبھال لی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بریفنگ میں بتایا کہ لاہور ،فیصل آباد اور ملتان میں گزشتہ رات سے اب تک متعددآپریشن کئے ہیں ،تمام ہی کارروائیاں فوج اور رینجرز کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ مل کی گئیں۔ آرمی چیف کو بتایا گیا کہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں ہونے والے آپریشن میں مشتبہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو بھی گرفتار کیا گیا، جن سے اسلحہ و بارود کی بڑی مقدار بھی برآمد ہوئی۔
بھارت کی خفیہ ایجینسی ’را‘ ایک عرصے سے پاکستان میں دہشتگردی کرواکرپاکستان کو داخلی طور کمزور کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے، مارچ کے شروع میں چمن کے علاقے سے ’را‘ کا ایک ایجنٹ کلبھوشن یادو گرفتار ہوا تھا۔ گرفتار ہونے والے بھارتی ایجنٹ کے بیانات سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اس بات کےلیے کوشاں ہے کہ پاکستان میں کبھی امن قائم نہ ہو۔ پنجاب میں ایک عرصے سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے ملک بھر سے آوازیں اٹھتی رہی ہیں، تاہم صوبائی حکومت دہشت گردوں کی موجودگی سے انکار کرتی رہی ہے۔ اگر دہشتگردوں کے خلاف منظم کارروائیاں پہلے کرلی جاتیں تو شاید آج یہ جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔ نواز شریف جو حکومت کے سربراہ ہیں ان سے قوم کچھ عملی اقدامات کی توقع کررہی ہے جبکہ وزیراعظم نواز شریف کا گیارہ منٹ کا قوم سے خطاب دراصل قوم کے ساتھ ایک مذاق تھا۔