تحریر: محمد اشفاق راجا ہندستان کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھارتی یوم آزادی کے موقع پر پاکستان پر بالواسطہ تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہاں دہشت گردوں کے گن گائے جاتے ہیں اور وہاں کی حکومت دہشت گردی کے نظریہ سے متاثر ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز دہلی کے لال قلعے میں یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے درفنطنی چھوڑی کہ بلوچستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت کے عوام نے اپنے لئے آواز اٹھانے پر میرا شکریہ ادا کیا ہے اور میں بھی ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے اپنی ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر میں کہیں بھی مقبوضہ کشمیر میں جاری حکومت مخالف احتجاجی لہر کا براہ راست ذکر نہیں کیا اور بھارتی فوجوں کے آگے سینہ سپر کشمیری نوجوانوں کو شدت پسند قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ شدت پسندی کا راستہ ترک کرکے قومی دھارے میں آجائیں۔ وہ انہیں باور کرانا چاہتے ہیں کہ یہ ملک تشدد کو کبھی برداشت نہیں کریگا اور نہ ہی کبھی دہشت گردوں کے آگے جھکے گا۔ انکے بقول زمین خون سے سرخ ہو گئی مگر دہشت گردی کے راستے پر جانیوالے کچھ حاصل نہیں کر سکے۔ مودی نے چند روز قبل اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان بلوچستان اور آزاد کشمیر میں ہونیوالی مبینہ زیادتیوں کا جواب دے۔
بھارتی وزیراعظم کی 15 اگست کی تقریر اور اس سے تین روز قبل کے انکے بیان سے جہاں پاکستان کی سالمیت کیخلاف انکے عزائم اجاگر ہوئے ہیں’ وہیں اقوام عالم کو بھی مکمل آگاہی ہو گئی ہے کہ پاکستان کے ساتھ اپنی دشمنی کی انتہاء تک جاتے ہوئے مودی ہی کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے جس ڈھٹائی کے ساتھ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے اس کا بھارتی سیاست دان’ دانشور’ عدلیہ کے ارکان اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے نمائندگان بھی نوٹس لینے پر مجبور ہوگئے ہیں جبکہ وفاقی مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کے علاوہ بلوچستان اور گلگت بلتستان کے وزراء اعلیٰ اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم نے بھی مودی کی سازشی سوچ پر مبنی درفنطنیوں پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکرے نے بلوچستان کے معاملات میں مودی کی مداخلت پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے باور کرایا کہ وہ دوسروں کی نہیں’ اپنی خبر لیں۔ بھارت کا بھلا بلوچستان سے کیا واسطہ ہے۔ مودی وفاقی حکومت اور عدلیہ کو مفلوج نہ کریں’ یہ بھارت کے مفاد میں نہیں ہے۔ اسی طرح سابق بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھی پاکستان کیخلاف مودی کے ہذیانی کیفیت میں دیئے گئے بیان پر انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور باور کرایا کہ بلوچستان پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے جس پر بھارت کا کوئی دعویٰ ہی نہیں تو اس پر بات کرنے کا کیا جواز ہے۔ انہوں نے مودی کو یہ بھی باور کرایا کہ کیا ہم امریکہ کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے ملک میں ہونیوالے مظالم پر کوئی بات کرے۔ انہیں گندی سیاست نہیں کرنا چاہیے تھی جبکہ انکی یہ سیاست پاکستان کو بھارت کے اندرونی معاملات پر بات کرنے کا جواز فراہم کریگی۔
Pakistan
مودی کی ننگی پاکستان دشمنی کا اندازہ تو اس سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے دو سال قبل بنگلہ دیش جا کر 1971ء کی جنگ کے حوالے سے مکتی باہنی کی پاکستان توڑو تحریک میں عملی طور پر حصہ لینے کا فخریہ اعتراف کیا جبکہ اب پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے سے انہیں پاکستان کی نظر آنیوالی اقتصادی ترقی اور خوشحالی ہضم نہیں ہو رہی اور وہ چینی لیڈر شپ پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ اس منصوبے کو ختم کر دیا جائے۔ اسی طرح وہ پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر سفارتی ادب آداب والے رسمی خیرسگالی کے بیان کے بجائے پاکستان کیخلاف یہ بڑ مارچکے ہیں کہ پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر پر بھی جلد بھارتی ترنگا لہرائے گا۔ انکے یہ سارے عزائم اس خطہ میں ہندو جنونیت کو فروغ دے کر جنگ و جدل کا اہتمام کرنیوالے ہیں اور وہ ان عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی جلدی میں بھی نظر آتے ہیں جس کا اندازہ انکے ایماء پر مقبوضہ کشمیر میں کشمیری حریت پسندوں کی تیسری نسل کی حق خودارادیت کیلئے بلند ہونیوالی آواز کو دبانے کیلئے بھارتی افواج کی جانب سے ان پر مظالم کے اختیار کئے گئے نئے ہتھکنڈوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس کے تحت انہوں نے گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے نہتے کشمیری نوجوانوں کو بے دریغ فائرنگ اور تشدد کے دوسرے ہتھکنڈوں سے شہید کرنے اور مستقل اپاہج بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ چنانچہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور عالمی قیادتوں نے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لے کر بھارت پر یہ مظالم بند کرنے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرنے کیلئے دبائو ڈالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
مودی اس عالمی دبائو سے ہی زچ ہو رہے ہیں اور انہیں مقبوضہ کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی ٹوٹتی نظر آرہی ہے اس لئے انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام کے علاوہ پاکستان کیخلاف بھی محاذ کھول لیا ہے۔ انہوں نے پہلے پاکستان پر کشمیری نوجوانوں کو بھارتی فوجوں کیخلاف کارروائی کیلئے اکسانے کا الزام عائد کیا اور ہر دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا جبکہ پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر اسکے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھانے کیلئے بھارتی فوجوں نے کنٹرول لائن کے نیزہ پیر سیکٹر میں بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ شروع کردیا۔ یہ سارے بھارتی اقدامات پاکستان پر نئی جنگ مسلط کرنے کے عزائم کا عندیہ دے رہے ہیں جبکہ پاکستان بھارتی پیدا کردہ کشیدگی کی اس فضا میں بھی اسکے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر اور دوسرے تنازعات کا حل چاہتا ہے جس کیلئے گزشتہ روز سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے اپنے بھارتی ہم منصب کو مراسلہ بھجوا کر باضابطہ مذاکرات کی دعوت بھی دے دی ہے جس میں باور کرایا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت پر تنازعہ کشمیر کو یواین قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ذمہ داری ہے جو ہمیں ادا کرنی چاہیے۔
Kashmir Issue
بھارت کی جانب سے اسکے جواب میں جنگ و جدل کے پیغامات مل رہے ہیں اور مودی آج بھی مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام کی جاری جدوجہد آزادی کے حقائق تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور ان پر انتہاء پسند اور دہشت گرد کا لیبل لگا کر انہیں قومی دھارے میں واپس آنے کا مشورہ دے رہے ہیں تاکہ وہ اپنا آزادی کا اب تک کا سارا سفر کھوٹا کردیں۔ اسی طرح بلوچستان کی بات کرکے اور وہاں علیحدگی پسند عناصر کو تھپکی دے کر انہوں نے بھارتی ”را” کے ذریعے بلوچستان میں انتشار پھیلانے کی سازشوں کو خود ہی بے نقاب کردیا ہے۔ علیحدگی پسندوں کو بھارتی سرپرستی حاصل ہونے کا ثبوت بھارتی میڈیا بھی فراہم کررہا ہے جسکے بقول براہمداغ بگتی نے اپنی تحریک کی کامیابی کیلئے بھارت سے مدد مانگ لی ہے اور درخواست کی ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے قیام کی طرح انکی ری پبلکن پارٹی کی بھی مدد کرے۔ اسی تناظر میں مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے باور کرایا ہے کہ مودی نے اپنی گزشتہ روز کی تقریر کے ذریعے بلوچستان میں دہشت گردی کرانے کا خود ہی ثبوت فراہم کردیا ہے جبکہ مودی مقبوضہ کشمیر کے المیہ سے عالمی توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کررہے ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان ثنائ اللہ زہری نے بھی اسی حوالے سے مودی کو باور کرایا ہے کہ بلوچستان ہمارا ہے اس لئے ہمیں ان سے کسی قسم کے مشورے یا ڈکٹیشن کی قطعاً ضرورت نہیں۔ گلگت بلتستان کے ترجمان نے بھی گزشتہ روز مودی کو بوکھلاہٹ کا شکار قرار دیا ہے اور انہیں باور کرایا کہ ہماری پاکستان سے وابستگی کسی جغرافیہ کی محتاج نہیں۔
مودی کی ہرزہ سرائی سے پاکستان کی سالمیت کیخلاف انکے جنونی عزائم اجاگر ہونے میں اب کوئی کسر باقی نہیں رہی جبکہ کشمیری عوام نے بھارتی یوم آزادی کو گزشتہ روز یوم سیاہ کے طور پر منا کر اور بھارتی فوجوں کی مزاحمت کرتے ہوئے مقبوضہ وادی میں پاکستانی پرچم لہرا کر دنیا کو یہ دوٹوک پیغام دے دیا ہے کہ کشمیر پر مودی سرکار کی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی باطل ہے اور آزادی انکی منزل ہے جو مودی سرکار کے جبر کے ہتھکنڈوں کے باعث اب بہت قریب آ چکی ہے۔ اس صورتحال میں عالمی قیادتوں کیلئے آئندہ ماہ یو این جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کے مطابق حل کیلئے مودی سرکار کو مجبور کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے اور توقع یہی ہے کہ مودی کے پیدا کردہ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے عالمی قیادتیں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنا کردار بہرصورت ادا کرینگے۔