گزشتہ روز قومی اسمبلی میں میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان کی تقریر سن کر مجھے بہت ہی افسوس اور دھجکا لگا کہ وزیر اعظم کی باتیں تضاد سے بھری ہیں۔ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور والی بات محسوس ہوا فرمایا کہ مجھے جو اقتدار ملا ہے وہ اللہ کا کرم ہے اور عوام کی امانت ہے، ہم اپنے تمام کاموں پر اپنے رب اور عوام کے سامنے جواب دہ ہیں میاں صاحب اللہ کا واقعی کرم ہے آپ پر کہ آپ کو تیسری بار یہ شرف حاصل ہوا کہ آپ پاکستان کا امیرالمومنین منتخب ہوئے ہیں مگر آپ میں اور اصلی امیر المومنین میں بہت فرق ہے۔ آپ عالیشان کھاتے ہیں، عالیشان پیتے ہیں، عالیشان محلات میں رہتے ہیں، عالیشان عیاشی کرتے ہیں، سکون سے سوتے ہیں گھومتے ہیں اور سکون سے پھرتے ہیں۔ لاکھوں روزخرچ کرتے ہیں، لاکھوں کی بوٹ، سوٹ اور گاڑی استعمال کرتے ہیں مگر اصل امیر المو منین بھوکے سوتے تھے، رات کو گلیوں میں گومتے تھے اور خادموں کی طرح در در جا کر عوامی مسائل حل کرتے تھے۔ ان کے پاس شام کی روٹی گھر میں موجود نہیں ہوتی تھی نہ ہی عید کے لیے اُن کے بچوں کے پاس نئے کپڑے ہوتے تھے۔ آپ تو ماشااللہ ! میاں نواز شریف اور موجودہ وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف دونوں 1.4 بلین ڈالرز کے مالیت کے ساتھ اپنے ملک میں چو تھے نمبر پر امیر ترین ہیں۔ مگر آپ کی عوام کے پاس بھوک اور افلاک کے سوا کچھ نہیں۔
کاش کہ آپ کو اس بات کا علم ہونے کے ساتھ عمل بھی ہوتا کہ آپ اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں تو آپ اس طرح عیاشی نہ کرتے۔ جسے اس بات کا فکر تھا وہ رات بھر جاگتے تھے اور روتے تھے کہ کوئی آج بھوک و افلاک سے نہ سوئے کہ کہیں روز قیامت اسے جواب دہ ہونا ہوگا اور اللہ کے سامنے شرمندگی ہو گی۔
میاں صاحب نے فرمایا کہ حکومت کی بنیادی فریضہ ہے کہ عوام کو جان و مال کا تحفظ فرا ہم کیا جائے۔ پاکستان کے عوام اور ادارے دہشت گردی کی زد میں ہیں۔ ہمارے معصوم بچے مر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں وہ اسے اپنی زمہ داری سمجھتے ہیں کہ عوام کے جان و مال کو ہر قیمت پر تحفظ دیا جائے۔ اسلام میں ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے ۔ درست فرمایا ہے مگر میاں صاحب آ پ کو اپنی جان و مال پاکستان کی عوام سے کئی گنا زیادہ عزیز ہے کیونکہ عوام بے چارہ روز ٹارگیٹ کلنگ، بم دھماکوں اور مختلف فسادات میں درجنوں کی حساب سے مر رہی ہے، سرحدیں محفوظ نہیں کوئی بھی بند اپنی ریاست میں بیٹھ پاکستانی عوام ٹارگیٹ کرتا ہے، ڈرون حملے کر کے لوگوں کو بے موت مار رہا ہے اور آپ بھیک کی صورت میں ڈرون سے پناہ چاہتے ہیں۔ آپ گھر، واشروم، باتھروم، آفس اور جلسہ گاہوں میں بلٹ پروف رہتے ہیں ہزاروں محافظ رکھے ہیں آپ نے اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے مگر عوام کو کوئی تحفظ نہیں ہے۔
Hazrat Umar
حضرت عمر نے اپنے دور حکومت میں فرمایا تھا کہ دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھی بھوک و پیاس کی وجہ سے مرتا ہے تو میں روز قیامت خدا کو جواب دہ ہونگا کاش کے آپ اس بات پر فکر کرتے تو آج پاکستان یرغمال نہ ہوتی فرمایا ہے کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں اور اسلام ہر انسان کی جان کو محترم قرار دیتا ہے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ اسلام سلامتی والی مذہب ہے اسلام بھائی چارہ اور امن کا درس دیتا ہے۔ فرمایا ہے کہ ریاست کا فرض ہے کہ اگر کسی انسان کی جان ناحق لی گئی ہو تو ریاست اس کی داد رسی کرے۔ ریاست کسی بھی شہری کی جان و مال اور آبرو و عزت کی حفاطت کو نظر انداز نہیں کر سکتی میاں صاحب اگر ایسی بات ہے تو طالبان اور بلوچستان میں ناراض بلوچوں کے ساتھ مذاکرات اور مسئلہ کی جڑھ تک پہنچ کر مثبت فیصلہ کی اشد ضرورت ہے۔ اور پاکستان کی بقاء کے لیے شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نافذ کرنا ہوگا و دیگر صورت کسی بھی قانون میں پاکستان کی دفاع بالکل بھی نہیں ہے۔
فرمایا ہے کہ قوم 14 سال سے دہشت گردی کا عزب برداشت کر رہی ہے، یہ ایک آمر کت فیصلوں کا نتیجہ ہے جس پاکستان کو فسا د کا گڑھ بنا دیا ہے۔ دہشت گردی نے ہزاروں پاکستانیوں کی جان لی ہے، اس میں عام شہری، سیکورٹی فورسز کے جوان اور علما بھی شامل ہیں، اس کے باوجود ہم نے ایسے عناصر کو موقع دیا کہ وہ امن کا راستہ اختیار کرے۔ ہم نے اے پی سی ( تمام سیاسی جماعتوں ) کے ساتھ یہ فیصلہ کیا ہے مذاکرات ہی درست ہے تاکہ وہ لوگ عام شہریوں کے جان و مال سے نہ کھیلیں اور ملک کے آئین کی پاسداری کریں مگرانھوں اعلانیہ مذاکرات سے انکار کیا تھا بعد ازاں انھوں میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کو قتل کیا اور اس کی قتل کی زمہ داری کو بڑے فخر سے قبول کی گئی تھی۔
پشاور، بنوں ، ہنگواور راولپنڈی میں قتل عام کیا گیا، میڈیا کے کارکنوں کو قتل کیا جا رہا ہے سینکڑوں افراد شہید ہوئے اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ یہ وحشت اسلام گوارہ کرتا ہے نہ دنیا کا کوئی اور قانون اور مذہب ڈرون حملوں کو رکونے کے لیے حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
Pakistan
پاکستان کی ساکھ پر دنیا سوالات اٹھا رہی ہے۔ ہم ملک اور قوم کو دہشت گردی کے ہاتھوں یر غمال نہیں بنا سکتے۔ امن کے حصول کے لیے تمام قوم یکسو ہو چکی ہے، ہم ماضی کے تلختجربات کو پس پشت رکھتے ہوئے پر امن حل کو ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مذاکرات کوکی پیش کش کی ہے لیکن مذاکرات کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی کی وارداتوں کو فوری طور پر بند کر دینا چاہیے کیونکہ مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔ ملک میں امن کا قیام ہمارا مشترکہ قومی مشن ہے کہ اس میں سب کواپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہم امن کی خواہش میں 7 ماہ سے لاشیں اٹھا رہے ہیں لیکن ایک بار پھر مذاکرات کی راہ ہموار کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے جس میں عرفان صدیقی ، میجر ریٹائرڈ محمد عامر، رحیم اللہ یو سف زئی اور افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم مہمند شامل ہونگے اور چوہدری نثار روز مرہ کے معاملات میں کمیٹی کے معاون ہونگے نگرانی خود کریں گے۔’ ‘ میاں صاحب یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں بالخصوص بلوچستان، کراچی، کے پی کے اور قبائلی علاقوں سمیت پورے ملک میں حالات خراب کرنے میں بلیک واٹر جیسی تنظیموں کے شوائد بھی ملے ہیں بلیک واٹر کو امریکہ سے امداد ملتا ہے یہ امریکی ایجنسی ہے جو امریکہ اشاروں پر کام کرتا ہے یہ ادارہ انتہائی خطر ناک ہے تو آپ بلیک واٹر کے آقا امریکہ کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بلیک واٹر کا خاتمہ کر کے پاکستان کو پر امن بنانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اور رہی بات ڈرون حملو ں کی رکوانے کی تو میاں صاحب ایک طرف یوم آزادی بھی مناتے ہیں اور خود کو غلام بھی تصور کرتے ہیں۔ اگر غلام نہیں تو ڈرون حملے کیوں جاری ہیں؟ ڈرون حملو ں کو رکوانے کے لیے منت سماجت کیوں کرتے ہیں؟ بچہ جب ضد کرتا ہے تو اُسے کھینچ کر تھپڑ مارا جاتا ہے وہ سدھرتا ہے امریکہ بھی تو مسلم ممالک کے سامنے ایک بچہ ہی ہے اگر مسلم ممالک اپنی قوت کے ساتھ خدا کا مدد کو تسلیم کرے تب۔
درحقیقت پاکستان کو تحفظ فراہم کرنے اور خوشحال بنانے کے لیے شرط یہ ہے کہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نافذ کرو اپنی قوانین اور جوڈیشری کو شریعت میں تبدیل کرو اور سود سے ملک کو پاک کرو پاکستان ایسا ترقی کریگا کہ دنیا یاد رکھے گی۔ باقی سب سیاسی باتیں ہیں جو بکواس سے کم نہیں۔ سیاست پاکستان کا حل نہیں بلکہ خلافت و شریعت ہی پاکستان کا حل ہے۔
میاں صاحب آپ اگر سنجیدگی سے پاکستان کو بچانا چاہتے ہیں تو اپنی باتوں کو غور کرو اور اپنی نظام حکومت کو دیکھو تو خود بخود احساس ہوگا کہ پاکستان پر امن و ترقی یافتہ کیسے ہوگا۔