تحریر: صباء نعیم امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم نواز شریف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ تصفیہ طلب مسائل اور تنازعات کو حل کرنے کے لئے آپ جو بھی کہیں میں وہ کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہوں، پاکستان آکر خوشی ہوگی یہ میرے لئے اعزاز ہوگا انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے کہا کہ 20جنوری کو عہدہ سنبھالنے سے پہلے بھی آپ جب چاہیں فون کال کرسکتے ہیں، آپ کی بہت اچھی شہرت ہے، آپ حیرت انگیز اور کمال کی شخصیت ہیں آپ شاندار کام کررہے ہیں جو ہر شعبہ میں نمایاں نظر آرہا ہے، میں جلد ہی آپ سے ملاقات کا منتظر ہوں۔ امریکی صدر نے کہا کہ آپ سے بات کر کے مجھے یوں محسوس ہورہا ہے جیسے آپ کو طویل عرصے سے جانتا ہوں۔
آپ کے ملک میں حیرت انگیز طور پر وسیع مواقع موجود ہیں، پاکستانی لوگ دنیا کے ذہین ترین لوگوں میں سے ہیں، وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے دورہ پاکستان کی دعوت پر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ ایسے منفرد ملک کا دورہ کر کے خوشی محسوس کریں گے جو شاندار لوگوں کا شاندار ملک ہے آپ پاکستانی عوام کو میرے جذبات پہنچائیں کہ وہ شاندار لوگ ہیں، اب تک میں جتنے پاکستانیوں سے ملا ہوں وہ غیر معمولی لوگ ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک شخصیت تو وہ تھی جو انتخابی مہم کے دوران ابھر کر سامنے آتی رہی اور سیاسی مخالفین بھی جسے ایسے انداز میں پیش کرتے رہے جس سے ان کی شخصیت کے منفی پہلو نمایاں ہوں، چونکہ وہ اس سے پہلے کبھی کسی عوامی عہدے پر متمکن نہیں رہے اور نہ ہی سیاست میں اس طرح متحرک رہے جس طرح ان کے مخالفین تھے۔
Illegal immigrants
اس لئے مجموعی طور پر دنیا بھر میں ان کو ایک مخصوص عینک سے دیکھا گیا ”موراوور” وہ خود بھی دانستہ یا دانستہ یا پھر ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے ایسے متنازع بیانات داغتے رہتے تھے جو ان کا ایک نا پسندیدہ امیج ابھار تے تھے۔ میکسیکو کی سرحد پر انہوں نے دیوار تعمیر کرنے کی بات کی کیونکہ اس سرحد سے غیر قانونی تارکین وطن بڑی تعداد میں امریکہ آتے ہیں۔ اب دیکھنا ہوگا کہ وہ سرحد پر دیوار تعمیر کرتے ہیں یا خاردار تار لگواتے ہیں یا پھر معاملہ جوں کا توں چلتا رہتا ہے کیونکہ جو غیر قانونی تارکین وطن خفیہ راستوں سے امریکہ آتے ہیں ان میں ہزاروں وہ بھی ہیں جو میکسیکو کی سرحد سے روزانہ امریکی انتظامیہ کی مرضی سے امریکہ آتے اور سارا دن محنت مزدوری کرکے واپس چلے جاتے ہیں، اوراگلے دن پھر آجاتے ہیں، ایک سیزن میں زیادہ سختی کی گئی تو امریکہ میں کھڑی فصلیں برداشت نہ کی جاسکیں کیونکہ امریکی مزدور کھیت مزدوری کا کام نہیں کرتے اس لئے ان لوگوں کی اس ”غیر قانونی سرگرمی” سے صرفِ نظر کرنے کا فیصلہ کیا گیا، عین ممکن ہے ڈونلڈ ٹرمپ جب صدر کا عہدہ سنبھال لیں تو انہیں بریف کیا جائے کہ میکسیکو کے باشندوں کے خلاف ہاتھ ہولا رکھیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ساتھ امریکہ اور 5یورپی ملکوں کے نیو کلیئر ڈیل کو بھی پسند نہیں کرتے بہت سے ری پبلیکن بھی جو اسرائیل کے زیر اثر ہیں اس معاہدے کے حق میں نہیں جب یہ بل کانگریس میں پیش کیاگیا انہوں نے کوشش بھی کی کہ یہ منظور نہ ہو سکے، تاہم صدر اوباما اس معاہدے کو امریکہ کے حق میں تصور کرتے تھے اور اسے امریکہ اور یورپی ملکوں کی کامیابی سمجھتے تھے اور انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اگر کانگریس نے اس معاہدے کی منظوری نہ دی تو وہ صدارتی ویٹو کا حق استعمال کرتے ہوئے معاہدہ منظور کر لیں گے تاہم کانگریس نے اس کی منظوری دیدی البتہ بعض ارکان نے ایرانی صدر کو خط لکھا کہ وہ یہ معاہدہ منظور نہ کریں کیونکہ اگلا صدر اس معاہدے کو منسوخ کردے گا، ٹرمپ کی رائے بھی اس کے خلاف ہی ہے البتہ سی آئی اے کے سربراہ نے انہیں خبر دار کیا ہے کہ ایران سے جو ہری معاہدے کی منسوخی تباہ کن ہوگی کیونکہ اگر معاہدہ منسوخ کیا گیا تو ایران کی حکومت جواب میں اپنا جوہری پروگرام دوبارہ شروع کر سکتی ہے، سی آئی اے نے امریکی صدرکو بعض دوسری پالیسیوں کے بارے میں بھی بریف کیا ہے تاہم دیکھنا یہ ہوگا کہ نئی امریکی انتظامیہ کس حد تک پرانی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوتی ہے اور کون سی نئی پالیسیوں کو اپناتی ہے مسلمانوں کے بارے میں بھی ان کے خیالات کو زیادہ تر منفی رنگ میں پیش کیا جاتا رہا ہے جو لازماً تبدیل ہوں گے۔
India and USA
کیونکہ لاکھوں امریکی مسلمانوں سے مستقل پھڈا نہیں ڈالا جاسکتا۔ جہاں تک برصغیر کا تعلق ہے گزشتہ کچھ عرصے سے امریکی پالیسی کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہو گیا ہے امریکی کمپنیاں اپنا اسلحہ بڑی تعداد میں بھارت کو فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہیں، بھارت امریکہ سے جنگی طیارے ، تو پیں اور دوسرے سازو سامان کے بڑے بڑے آرڈر دے رہا ہے اتنے وسیع پیمانے پر سازو سامان بنانے کے لئے امریکی کمپنیاں بھارت میں بھی کار خانے لگانے کے لئے تیار ہیں، دوسرے تجارتی مقاصد بھی امریکہ کے پیش نظر ہیں بھارت کے ساتھ امریکہ نے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا معاہدہ بھی کئی سال پہلے کر لیا تھا۔ امریکہ بھارت کو این ایس جی کی رکنیت دلانے کے لئے بہت پرجوش ہے اور ہر عالمی فورم پر بھارت کی حمایت کر رہا ہے۔ بھارت کی جانب جھکاؤ کے باوجود امریکہ پاکستان کو کلی طور پر نظر انداز بھی نہیں کر سکتا۔ اس لئے یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں رہیں گے یہ تو ماضی میں بھی ہوتا رہا کہ کبھی تعلقات بہت اچھے ہو جاتے تھے اور کبھی ان میں سردمہری آ جاتی تھی اب اگر تعلقات بہترین نہیں ہوں گے تو بدترین کی امید بھی نہیں رکھنی چاہیے۔
امریکہ کے ساتھ دوستی اگر دشمنی میں نہیں بدلتی تو بھی کسی وقت یہ امید کی جا سکتی ہے کہ عالمی حالات کی تبدیلی کے ساتھ ہی تعلقات مزید بہتر ہو جائیں کیونکہ پاکستان جس خطے میں واقع ہے اس کی اپنی سٹرٹیجک اہمیت ہے۔ صدر ڈونلڈٹرمپ نے وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ فون پر بات چیت کرتے ہوئے پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان سے مترشح ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں پاکستان کا ایک مثبت اور خوشگوار تصور ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی انہیں پاکستان کی اہمیت سے آگاہ کر دے گی اور یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد معروضی حقیقتوں کی روشنی میں پاکستان کے ساتھ پہلے کی طرح قریبی تعلقات رکھیں گے۔ ملکوں کے تعلقات باہمی مفادات کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں اور ان میں اونچ نیچ بھی مفادات کے پلڑے جھکنے کے ساتھ آتی رہتی ہے۔ اس لئے یہ امید رکھنی چاہیے کہ ٹرمپ کی صدارت کا دور پاکستان کے لئے اتنا بھی تلخ نہیں ہوگا جتنا بعض حلقے تصور کرتے رہے ہیں ویسے بھی تصور اور حقیقت میں کافی فاصلے ہوتے ہیں ہمیں ٹرمپ کی صدارت میں پاکستان کا کیس بہتر انداز میں امریکی انتظامیہ کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور اگر امریکہ پاکستان بھارت تعلقات کے ضمن میں اپنی پالیسی ترک کرکے ثالثی یا مصالحت پر آمادہ ہو توخطے میں کشیدگی کا خاتمہ ممکن ہے جو دنیا کے وسیع تر مفاد میں بھی ہوگا۔