تحریر : سید توقیر زیدی اگر ریفرنس ریفرنس ہی کھیلنا ہے تو پھر کھیل یکطرفہ کیوں ہو دو طرفہ کیوں نہیں، ویسے کسی بھی کھیل میں کم از کم دو فریق تو ہونے چاہئیں۔ اکیلا کھلاڑی تو نہیں امپائر ہوسکتا ہے۔ تحریک انصاف سمیت بہت سی جماعتوں نے الیکشن کمیشن میں وزیراعظم کی نااہلی کے لئے ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔ پچھلی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے ثبوت طلب کئے تھے، جو اب تک تو پیش نہیں کئے گئے، اب اگلی تاریخوں پر پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا ہے، لیکن مسلم لیگ (ن) نے یہ الیکشن کمیشن میں نہیں، سپیکر قومی اسمبلی کے پاس دائر کیا ہے۔ جنہوں نے کہا ہے کہ ریفرنس پر فیصلہ قانون کے مطابق کیا جائیگا۔ ریفرنس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین نے اپنے اثاثے ڈکلیئر کرتے ہوئے آف شور کمپنیاں چھپائے رکھیں اور کاغذات نامزدگی میں ان کا ذکر نہیں کیا۔
ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورے نہیں اترتے، کسی جھوٹے شخص کو اسمبلی میں بیٹھنے کا اختیار نہیں۔ جھوٹ بولنے پر عمران خان صادق اور امین نہیں رہے۔ ریفرنس اگرچہ الگ الگ فورموں پر دائر ہوئے ہیں۔ تاہم ان میں جن دلائل کا سہارا لیا گیا ہے وہ کم و بیش ایک جیسے ہیں، دونوں ریفرنسوں میں ایک مماثلت بھی ہے کہ جن کے خلاف یہ دائر ہوئے ہیں وہ انہیں پوری شدت سے جھٹلاتے ہیں۔ وزیراعظم بھی ان الزامات کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں، جو ریفرنسوں میں ان پر عائد کئے گئے ہیں اور ظاہر ہے عمران خان کو بھی یہ الزامات قبول نہیں، اس لئے اب فیصلہ مجاز حکام نے ثبوتوں، شہادتوں اور دلائل کی بنیاد پر ہی کرنا ہے، جس طرح ہر مقدمے کے مدعی اور اس کے وکیل کو یقین ہوتا ہے کہ فیصلہ انہی کے حق میں ہوگا، اسی طرح دونوں ریفرنسوں کے مدعیوں کو بھی یقین ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا، تاہم عمران خان اپنے خلاف ریفرنس پر برہم اور اسے ”بلیک میل” قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ریفرنس مجھے ڈرا نہیں سکتا، حکومت اس طرح مجھے پیچھے ہٹانا چاہتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوگا ”حکومت کچھ بھی کرلے وزیراعظم کے احتساب کے لئے آخری حد تک جائیں گے۔” اگلے ہی سانس میں عمران خان نے ایسا حکم بھی صادر کر دیا جیسے وہ برسراقتدار آگئے ہوں اور فرمایا تحریک انصاف کرپٹ عناصر کو جیلوں میں ڈالے گی۔ یہ دعویٰ سن کر ہمارے ایک دوست نے ارتجالاً کہا پہلے خیبرپختونخوا کے کرپٹ عناصر کو تو جیلوں میں ڈال دیا جائے۔ وہاں تو جن لوگوں کو کرپشن کے الزام میں صوبائی کابینہ سے نکال دیا گیا تھا، تحریک انصاف کے رہنما سر کے بل چل کر ان کے پاس گئے اور انہیں دوبارہ کابینہ میں شمولیت پر راضی کیا اور تو اور ان کی پارٹی کے اپنے ارکان صوبے کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ کرپشن میں ملوث ہیں اور صوبائی بجٹ کا سب سے زیادہ حصہ انہوں نے اپنے آبائی ضلع نوشہرہ میں خرچ کر دیا۔
Corruption
یہ الزام اگر مسلم لیگ (ن) نے لگایا ہوتا تو شاید اسے پروپیگنڈہ سمجھا جاتا لیکن الزام لگانے والے تحریک انصاف کے اپنے ارکان اسمبلی ہیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صوبے کا سارا بجٹ چار اضلاع میں خرچ کیا جا رہا ہے، جبکہ باقی اضلاع کو جو پسماندہ بھی ہیں، محروم رکھا جا رہا ہے۔ ہم نے اپنے دوست سے کہا کہ تحریک انصاف اب جن لوگوں کو جیلوں میں ڈالنا چاہتی ہے وہ صوبائی حکومت کے قابو میں نہیں آتے، ان کے لئے وفاقی حکومت کا اقتدار ضروری ہے۔ اس لئے خان صاحب کی اب کی بار یہ کوشش ہے کہ وفاقی اقتدار بھی ان کی پارٹی کو مل جائے۔
ہمارے اس دوست نے کہا کہ اقتدار ملنے کی ایک ہی صورت ہے کہ عمران خان قومی اسمبلی کی 172 نشستیں جیت لیں یا ان کے اتحادی مل ملا کر اتنی نشستیں بنا لیں کہ وہ قومی اسمبلی میں اکثریت بنا سکیں تو ایسی صورت میں انہیں اقتدار مل سکتا ہے لیکن انہوں نے ضمنی انتخابات، بلدیاتی انتخابات، کنٹونمنٹ بورڈوں کے انتخابات اور اب تازہ ترین آزاد کشمیر کے انتخابات میں جس انتخابی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے تو نہیں لگتا کہ وہ اس ضمن میں کسی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر پائیں گے، بلکہ اب تو لگتا ہے کہ اگر ووٹروں نے صوبہ خیبر پختونخوا میں ان کی کامیابیوں کا باریک بینی سے جائزہ لے لیا اور مخالفین ذرا منظم ہوگئے تو پھر شاید صوبے میں بھی دوبارہ اقتدار حاصل کرنا ممکن نہ ہو، پارٹی کے اندر جو تفریق ہے اگر اسے نہ روکا گیا تو انتخابات تک خلیج مزید وسیع ہو جائیگی۔
پھر برسر اقتدار جماعت الیکشن میں ہمیشہ اپنی کارکردگی کو پیش کرکے ووٹ مانگتی ہے۔ عمران خان نے بنوں میں چند ماہ قبل ایک جلسے میں لوگوں سے پوچھا تھا کہ کیا صوبے میں تبدیلی آگئی ہے تو انہیں جواب ”ناں” میں ملا تھا۔ انہوں نے پوچھا پولیس تبدیلی ہوگئی ہے۔ جواب آیا نہیں۔ اب وہاں پولیس اصلاحات کا آرڈیننس نافذ ہوا ہے تو دیکھیں اس کا کیا ردعمل سامنے آتا ہے۔
Imran Khan
البتہ یہ آرڈیننس ایسا ہے کہ اگر اس پر عملدرآمد ہو جائے تو پولیس کلچر میں تبدیلی کی بات کی جاسکتی ہے، لیکن یہ تو ایک پہلو ہے باقی بہت سارے کام تو ابھی صوبے میں بھی نہیں ہوسکے۔تجزیاتی رپورٹ بی این پی اسی طرح کا ایک ریفرنس جہانگیر ترین کے خلاف بھی دائر کیا گیا ہے جنہوں نے اپنے بچوں کے نام پر آف شور کمپنیوں کا وجود تسلیم کیا تھا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کے بچے عاقل، بالغ ہیں اور اپنا الگ کاروبار رکھتے ہیں، اس لئے اگر ان کے نام پر آف شور کمپنیاں ہیں تو مسؤلیت کا بار ان پر عائد نہیں ہوتا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس دلیل کا اطلاق وزیراعظم نواز شریف کے کیس پر نہیں ہوتا؟ ان کے نام پر بھی کوئی آف شور کمپنی نہیں۔ اگر ان کے بچوں کے نام پر ہے تو وہ ذمے دار ہیں، لیکن وزیراعظم سے اس سوال کا جواب طلب کیا جا رہا ہے کہ ان کے بچوں کے پاس اتنے وسائل کہاں سے آئے۔ یہی سوال جہانگیر ترین سے بھی ہوسکتا ہے۔ بہرحال اب ریفرنس ریفرنس کا کھیل شروع ہے۔ دیکھیں اس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔