تحریر: سید انور محمود وزیراعظم نوازشریف نے پچھلے ایک ماہ کے دوران 28 مارچ سے 22 اپریل 2016ء تک تین بار قوم سے خطاب کرکے اپنے خطابوں کی ہیٹ ٹرک مکمل کرلی۔ انہوں نے 28 مارچ، 5 اپریل اور 22 اپریل کو قوم سے خطاب کیا، انکا پہلا خطاب 27 مارچ کے اسلام آبادکے دھرنے اور لاہور میں گلشن اقبال پارک میں خودکش دھماکے سے متعلق تھا جبکہ اگلے دو خطاب کا تعلق پانامہ لیکس میں ان کے خاندان پر لگائے ہوئے الزامات سے تھا۔ اپنے تیسرے 22 اپریل کے خطاب میں وہ اپنی اور اپنے بچوں کی صفایاں پیش کرتے رہےاور کہا کہ انہیں پاکستان کے باشعور عوام نے منتخب کیا ہے وہ اﷲ کے بعد صرف اور صرف پاکستان کے عوام کو جوابدہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر وزیر اعظم کےقوم سے خطابوں کی ہیٹرک پر لوگوں کا کہنا ہے کہ:
۔ سانحہ پشاور ہوا قوم سے خطاب نہ ہوا ۔ گذشتہ سال کراچی میں چار ہزار افراد گرمی سے مرگئے خطاب نہ ہوا ۔ قصور میں بچوں سے زیادتی ہوئی خطاب نہ ہوا ۔ لاہور، کراچی، چار سدہ اور دوسرئے شہروں میں دشت گردی ہوئی خطاب نہ ہوا ۔ را کا حاضرسروس ایجنٹ پکڑا گیا خطاب نہ ہوا ۔ تھر میں بچے بھوک سے مر گے اور مررہے ہیں خطاب نہ ہوا لیکن جب اپنی اوراپنے بچوں کی کرپشن سامنے آئی تو ایک ماہ میں تین بارقوم یاد آئی۔
ستائیس مارچ کو اسلام آبادکے ڈی چوک پر سنی تحریک کا دھرنا شروع ہوا ، اس دھرنے سے پہلے مظاہرین نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں سرکاری اورعام لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا، اسلام آباد میں میٹرو اسٹیشنوں پر توڑ پھوڑکی اور چار کنٹینر بردار ٹرکوں اور آگ بھجانے والی ایک گاڑی کو جلادیا تھا۔ بعد میں مظاہرین تمام رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے ریڈ زون میں داخل ہوگئے۔ ایک اندازئے کے مطابق کرڑوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچا یا گیا۔ 27 مارچ کو ہی لاہور کے گلشن اقبال پارک میں خودکش حملہ آور نے ایک زور دار دھماکے سے اپنے آپ کو اڑا لیا، اس دھماکے میں 72 افراد ہلاک اور 300 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں، ہلاک ہونے 72 افراد میں 29 بچے بھی شامل تھے۔ گلشن اقبال پارک میں ہونے والی یہ دہشتگردی اس سال کی سب بڑی دہشتگردی ہے ۔ اگلے روز28 مارچ کی شام وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب کیا جو صرف گیارہ منٹ کا تھا، گیارہ منٹ میں وزیر اعظم نے غلط بیانی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ گیارہ منٹ میں انہوں نے راولپنڈی اوراسلام آباد میں قومی املاک کو نقصان پہچانے والوں کے خلاف اور لاہور میں مرنے والوں سے زیادہ ہمدردی میں بولنے کے بجائے وہ اپنی حکومت کی تعریف میں زیادہ بولتے رہے۔وزیر اعظم 72 لاشوں پر اپنی سیاست چمکارہے تھے، انکا کہنا تھا کہ‘‘ہم نے 2013ء میں حکومت سنبھالنے کے بعد پہلی بار دہشتگردی جیسے مسئلہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے حل کرنے کے لئے آپریشن شروع کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کے تحت پولیس اور افواج نے خون سے مہم کو پروان چڑھایا’’۔ پتہ نہیں وہ کسے بیوقوف بنارہے تھے، پوری قوم جانتی ہے کہ وہ طالبان دہشتگردوں کی مدد سے انتخابات جیتے تھے۔ وزیراعظم نواز شریف جو حکومت کے سربراہ ہیں ان سے قوم کچھ عملی اقدامات کی توقع کررہی تھی، جبکہ وزیراعظم نواز شریف کا گیارہ منٹ کا قوم سے خطاب ایک رسمی کارروائی تھا۔
Panama Paper
پاناما کی ایک لا فرم موساک فونسیکا سے کی جانب سے افشا ہونے والی ایک کروڑ دس لاکھ دستاویزات میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی فیملی بھی شامل ہے۔ان دستاویزات میں وزیر اعظم نواز شریف کے تین بچوں مریم نواز،حسین نواز اورحسن نواز کے نام شامل ہیں۔ بدعنوانی کے الزامات تو 1980ء سےنواز شریف کا پیچھا کررہے ہیں اور پاناما پیپرز میں افشا ہونے والے الزامات میں سے زیادہ ترالزامات 1990ء کی دہائی کے شروع میں ان کے خلاف ہونے والی وفاقی سطح پر تفتیش میں شامل تھے۔ نواز شریف نے 1997ء میں جب دوسری بار اقتدار حاصل کیا تو انھوں نے اس انکوائری کو ’سیاسی خواہش‘ قرار دیتے ہوئے بند کرنے کا حکم دے دیا۔ افشا ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ نواز شریف کے تین بچوں کی آف شور کمپنیاں اور اثاثے ہیں جو ان کے خاندانی اثاثوں میں ظاہر نہیں کیے گئے تھے۔ ان کمپنیوں کو غیر ملکی اثاثے حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا جن میں لندن کے مے فیئر علاقے میں پارک لین کے قریب اپارٹمنٹس کی خریداری شامل ہیں۔ان الزامات نے نواز شریف کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
ان الزامات کے بعد پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سخت رد عمل کے باعث وزیراعظم نواز شریف نے دوسری بار 5اپریل کو قوم سے خطاب کیا۔ نواز شریف نے پانامہ لیکس کے حوالے سے اپنے خاندان پرلگائے گئے الزامات کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ گھسے پٹے الزامات دہرانے اور روز تماشہ لگانے والے کمیشن کے پاس جاکرالزامات ثابت کریں، میرے خاندان کے کسی فرد نے قومی امانت میں رتی بھر خیانت نہیں کی، ہمارے بچے ملک میں کمائیں تو تنقید اور باہر کاروبار چلائیں تو الزامات لگتے ہیں۔ پانچ اپریل کو وزیراعظم کا خطاب 13 منٹ 46 سیکنڈکا تھا جس میں انہوں سرکاری ٹی وی پرصرف اور صرف اپنے خاندان کی بات کی تھی۔ اپنے خاندان کی صفائی دینے کے علاوہ انہوں ایک جوڈیشنل کمیشن کے قیام کا اعلان کیا جس کو تمام حزب اختلاف کی جماعتوں نےمسترد کردیا۔
حزب اختلاف کی جماعتوں نے نواز شریف کے جوڈیشنل کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ کہ وہ کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھیں ، حزب اختلاف کی جماعتیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنانے پر متفق ہیں۔ دو ہفتے بعد 22 اپریل کو تیسری مرتبہ وزیراعظم نواز شریف نے پھر سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب کیا، ان کے اس خطاب کا دورانیہ 23 منٹ تھا۔اس خطاب کے تین حصے تھے ، پہلا وہ جس میں حزب اختلاف کے مطالبے کو مانتے ہوئے اس بات کو مان لیا کہ وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط تحریر کریں گے کہ وہ پانامہ پیپرز کے معاملہ کی تحقیقات کے لئے کمیشن تشکیل دیں اور وہ اس کمیشن کی سفارشات کوقبول کریں گے۔ خطاب کا دوسرا حصہ وہ تھا جس میں وہ پوری قوم کو اپنی دکھ بھری کہانی سناتے رہے کہ ان پرکون کون سے ظلم ہوئے، اور خطاب کا تیسرا حصہ وہ تھا جس میں وہ اپنے مخالفوں پر الزامات کی بارش کرتے رہے۔ وزیر اعظم کی اس تقریر میں واضع طور پرتلخی محسوس کی گئی۔
Commission
وزیر اعظم چیف جسٹس کو خط لکھ چکے ہیں لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے کمیشن کے اختیارات پر کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے بتا یا کہ چیف جسٹس کیسے اور کتنے عرصے میں تحقیقات کرپائیں گے۔ حزب اختلاف نے پاناما لیکس پر جوڈیشل کمیشن کے کیلئے ٹرمز آف ریفرنس کو مسترد کردیا۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ یہ وہ کمیشن نہیں جو ہم مانگ رہے تھے۔ وزیراعظم کی تیسری تقریر کے بعد سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے تبصرئے کیے کچھ نے ان کی مخالفت میں اور کچھ نے انکی حمایت میں۔نواز شریف کے ایک مخالف نے سوشل میڈیاپر انہیں مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ، ۔ وزیر اعظم صاحب، آپ کا خطاب سنا جس میں آپ اپنے ساتھ ہوئے ظلم کا حساب مانگ رہے تھے۔ تو جناب حکومت آپ کی، کابینہ آپ کی، سینٹ آپ کی ، عدلیہ آپ کی، پولیس آپ کی۔ انصاف کا اختیار بھی آپکا۔ پھر بھی آپ پر ظلم کرنے والا بلکہ آپ کے خاندان اور پارٹی کے ساتھ سیاسی ہاتھ کرنے والا اب کی بار قانونی ہاتھ کرکے باہر بھاگ گیا اور آپ حساب کی منتيں قوم سے کر رہے ہیں ۔
نواز شریف کے ایک اور مخالف نے سوشل میڈیاپران پر طنز کرتے ہوئے لکھا ہے کہ، ۔ اس ملک کے بادشاہ نے گھر میں اتنی دولت جمع کر لی ہے کہ اس کے گھر میں عزت رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچی۔ وزیر اعظم کے ایک بہت ہی ہمدرد اور حامی بشیر اعوان نواز شریف کی وجہ سے مکہ المکرمہ کو درمیان میں لے آئے، وہ لکھتے ہیں: ۔ وہ وقت دور نہیں جب دنیا جان لے گی! کہ پانامہ لیکس سعودی عرب اور روس کے خلاف امریکہ،بھارت اور کئی ایجنسیوں کی سازش تھی،جس میں تحریک انصاف جیسے بکاؤ مال نے بھی حصہ ڈالا،اس لیک کا اصل ہدف نواز شریف نہیں مکہ ہے۔ کرپشن پاکستان میں ایک کینسر کی طرح پھیل چکا ہے، کرپشن کا کینسر سارے ملک کو کھوکھلا کررہا ہے۔ اور پاکستان میں اس حوالے سے بڑی تکلیف دہ صورتحال یہ ہے کہ کرپشن کرنے والے ہی شور مچارہے ہیں کہ کرپشن بڑھ رہا ہے۔