تحریر: رانا اعجاز حسین برسر اقتدار آنے کے بعد سے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے کئی بار اپنے بیانات اور خطاب کے دوران کہا ہے کہ” بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور ہمسائے تبدیل نہیں کیے جاتے، بھارت کے ساتھ مستقل امن چاہتے ہیں، بھارت کے ساتھ اس قدر دوستی چاہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان ویزے کی پابندی بھی ختم ہوجائے، کشمیر سمیت تمام معاملات میز پر بیٹھ کر حل کرنا چاہتے ہیں، بھارت ایک قدم آگے بڑھے ہم دوقدم آگے بڑھیں گے۔” وزیر اعظم پاکستان کے جذبات اور خیالات کو دیکھئے مگر بھارت نے شاید ہمارے ہر پیغام محبت کو ہماری کمزوری سمجھا ہے۔
بھارت نے ہمیشہ سے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا ہے ،اور حکومت پاکستان کے بیانات کو کبھی اہمیت نہ دی ہے ، ایک ہم پاکستانی ہیں کہ بھارت کے سامنے بچھے چلے جاتے ہیں ،دوسری طرف بھارت ہے کہ کشمیر میں مسلمانوں پر سنگین ظلم و بربریت اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی روا رکھے ہوئے ہے۔بھارت نے ہر بار پاک بھارت مذاکرات کو ”مذاق رات” سے زیادہ اہمیت نہ دی ہے اور اپنی ہٹ دھرمی اور طرح طرح کے الزامات اور دھمکیوں سے مسلسل مسئلہ کشمیر سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔ آزادی ایک ایسی نعمت ہے جو کسی بھی انسان کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرتی ہےاور کوئی بھی قو م اپنی ثقافت روایات اور مذہبی آزادی کے تحت اپنی زندگی بطور آزاد شہری گزار سکتی ہے۔
United Nations
۔
اسی کے بعد قومیں دنیا میں اپنی نسل در نسل شناخت کا باعث بنتی ہیں اور جب کسی قوم کو زبر دستی زیر کرنے یا پھران کے حقو ق سلب کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ ہتھیار تو کیا اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنے حقوق کا دفاع کرتے ہیں یہ کیفیت ہر انسان کی ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی نے کسی سے آزادی جیسی نعمت کو چھیننے کی کوشش کی تو اس کا کیا انجام ہوا ؟۔ کشمیر کے معاملے پر حکومت پاکستان نے یہ معاملہ اقوام متحدہ میں کئی بار پہنچایا اور ہر بار اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دے کر اس کے حل کے لئے بھارت پر زور دیا گیا۔ کیا وجوہات ہیں کہ اقوام متحدہ بھی اپنی قرار دادوں پر عملدر آمد کرنے میں بے بس ہے ؟۔
لاکھوں کشمیری عوام حق خود اردایت کے حصول کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ بھارتی فوج کی جانب سے کشمیریوں پر مظالم کے اڑسٹھ سال کے بعد تک اس مسئلے کے حل کے سلسلے کی کوششیں جاری ہیں ۔ جس کے لئے کئی فارمولے اور معاہدے ہو چکے ہیں لیکن بھارت کبھی اس معاملے کے حل میں مخلص نہیں رہا۔ بلکہ جب بھی اس مسئلے کے بارے میںمذاکرات شروع ہوئے ہیں وہ کوئی نہ کوئی نیا محاذ کھڑا کر دیتا ہے۔
Indian Military
۔
جس سے کشمیر کا معاملہ کھٹائی میں پڑ جاتا ہے اور پیشرفت رک جاتی ہے سات لاکھ سے زائد بھارتی فوجی وحشیانہ کاروائیوں کی مدد سے کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ جبکہ بھارتی میڈیا منفی پراپیگنڈہ پر عمل پیرا ہے ۔ اب تک پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی بہتری اور بحالی کیلئے بظاہر جو بھی پیش رفت ہوتی رہی ہے اولاً تو یکطرفہ تھی یعنی صرف پاکستان کی جانب سے ہی تھی ،دوسرے یہ کہ اس کا ایک محرک دونوں ملکوں کی خاطر دلی اور اسلام آباد کے باہمی تعلقات میں کبھی ٹھہراؤ اور کبھی ارتعاش پیدا ہوتا رہا۔
جہاں تک بڑی طاقتوں کا تعلق ہے ان کا اپنا طویل المدت مفاد اسی میں ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کبھی امن و امان قائم نہ ہو کیونکہ یہ تاریخی خطہ لا محدود وسائل و معادنیات کا مالک ہے ، اور کہیں یہ خود آپس میں کوئی سمجھوتہ نہ کر لیں، اور یہ اپنی مرضی سے عالمی سیاست میں اپنا کوئی کردارادا کرنے کے قابل نہ ہوجائیں۔ اور بعید از قیاس نہیں کہ طاقتیں بھارت کے ساتھ اس پر بھی متفق ہوں کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست پاکستان کو کہیں اقوام عالم اور ترقی یافتہ ممالک میں برتری حاصل نہ ہو جائے۔
Pakistan And India
اس حقیقت سے بھی انکار نا ممکن ہے کہ ان دونوں ملکوں یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کیلئے بھارت کی طرف سے کبھی کسی بھی حقیقی خواہش اور کوشش کا اظہار نہیں کیا گیا ۔ جس کا مقصد دنیا کے اس حصہ میں پائیدار امن کا قیام اور تنازعات کا منصفانہ اور با عزت تصفیہ ہو بلکہ یہ خواہش اور کوشش پاکستان کی جانب سے ہی رہی ہے ۔ بھارتی حکومت نے کبھی بھی کسی مرحلہ پر سچے دل سے پاکستان کی طرف سے کی گئی تمام مثبت کوششوں اور نیک خواہشات کو ناکام بنا دیا اور اس طرح دو طرفہ تعلقات کا سارا عمل سبوتاژ ہوتا رہا ہے۔
میڈیا کسی بھی علاقے ‘ملک یا قوم کی سوچ اور ان کے نظریات تبدیل کر سکتا ہے۔ پاکستان کو شدید ضرورت ہے کہ وہ میڈیا کے ذریعے اصل صورتحال اور سنگینی کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرے تاکہ بھارتی میڈیا کا مقابلہ کر کے کشمیری عوام سے موقف کی صحیح ترجمانی ہو اس معاملے میں صرف پی ٹی وی ہی نہیں بلکہ دوسری پرائیوٹ ٹی وی چینلز اور اخبارات کو اس معاملے میں سنجیدگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ کشمیر جب سے شروع ہوا ہے اس دن سے جو بھی حکومت پاکستان میں آئی اس نے یہ مسئلہ حل کرانے کی بھر پور کوششیں کیں۔
Kashmiris
جنگوں کے بعد مذاکرات کا بھی سلسلہ جاری رہا مگر اس میں کوئی خاص پیشرفت بھارت کی وجہ سے نہیں ہو سکی ۔ جنگوں سے دونوں ملکوں کی عوام متاثر ہوئیں جبکہ اس سے اصل مسئلہ وہیں کا وہیںکھڑا رہا ۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی ملک کو ثالث کے طور پر شامل کیا جائے جو تینوں کی بات چیت سن کر اس پر کوئی فیصلہ کرے ۔ اب ثالثی کے لئے بھی اقوام متحدہ کو آگے آنا چاہئے جیسے دنیا کے دیگر علاقوں میں کئی تنازعات کو حل کرایا کیونکہ بنیادی ذمہ داری اقوام متحدہ کی ہی ہے ورنہ اس کا وجود بے کار و بے معنی ہے۔
دوسری طرف امریکہ جو دنیا کی سپر پاور کہلوانے والا ہے اس کو اگر ثالثی کے لئے شامل کیا جائے تو یہ بے معنی ہی ہو گا کیونکہ اس کے ہر معاملے میں اپنے مفادات مقدم ہوتے ہیں۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ چین جو امن پسندی کا حامل ملک ہے اس میں ثالثی کے طور پریہ مسئلہ حل کرانے کے بارے میں اقدامات کرے ۔ بغیر کسی غیر جانبدار ثالث کے یہ مسئلہ حل ہونا ممکن نہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ جب بھی بھارت سے مذاکرات کا مرحلہ آئے مسئلہ کشمیر کو اولیت دی جائے اور اس مسئلہ کے بعد ہی بھارت سے دیگر مسائل پر بات چیت کی جائے۔دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر لانے اور بر صغیر میں امن واستحکام کے قیام اور بقاء کی خاطر مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیا جانا از حد ضروری ہے۔
Rana Aijaz Hussain
رانا اعجازحسین موبائل نمبر0300-9230033 ای میل: ra03009230033@gmail.com