اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے پاکستان کرکٹ بورڈ سے متعلق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا حکم نامہ معطل کر دیا ہے جس کے بعد نجم سیٹھی ایک بار پھر چیئرمین پی سی بی کے عہدے پر بحال ہو گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عدالتی فیصلے کے خلاف کس طرح اقدام کر سکتے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس انور ظہیر جمالی پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے چیئرمین پی سی بی تقرری کیس کی سماعت کی۔
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کیساتھ مکالمے کے دوران کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد اس اعلامیے کی گنجائش نہیں تھی۔ کس قانون کے تحت آپ نے یہ آئین بنا دیا ہے، کیا آپ عدالت کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں؟۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ نجم سیٹھی چیئرمین نہیں بننا چاہتے، مگر انھیں کام کرنے دیا جائے۔
وزیراعظم نے کہا ہے کہ گورننگ باڈی کو چلنے دیا جائے اور جو عبوری سیٹ اپ بنا ہے اس کو جوں کا توں رکھا جائے۔ جس پر جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اگر چودھری ذکاء اشرف اور نجم سیٹھی دونوں کو گورننگ باڈی کا چیئرمین بنا دیا جائے تو آپ کا کیا خیال ہے۔ جو اکثریت حاصل کر لے وہ پی سی بی چیئرمین بن جائے۔ ذکاء اشرف کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہم ایسے سیٹ اپ پر راضی ہیں لیکن اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئین میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ نجم سیٹھی سے پوچھ لیتے ہیں کہ کیا وہ اپنا عہدہ چھوڑنے کیلئے راضی ہیں؟۔
نجم سیٹھی نے عدالت کے روبرو اپنے بیان میں کہا کہ یہ میرا اور ذکاء اشرف کا معاملہ نہیں، مجھے یہ عہدہ لینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں نے تو وزیراعظم کے کہنے پر بڑے تذبذب میں یہ عہدہ قبول کیا تھا۔ اگر میری وجہ سے معاملہ حل ہوتا ہے تو مجھے عہدہ چھوڑنے میں کوئی اعتراض نہیں لیکن وزیراعظم چاہتے ہیں کہ میں پی سی بی میں رہوں۔
لاکھوں ڈالر کے معاہدے ہونے ہیں اگر مجھے ہٹایا گیا تو کمپنیوں کا وقار مجروع ہوگا۔ واضع رہے کہ وزیراعظم نے 10 جولائی کے حکم نامے میں پی سی بی کا آئین اور عبوری سیٹ اپ تشکیل دیا تھا اور نجم سیٹھی کو برطرف کرکے ریٹائرڈ جج جمشید علی شاہ کو ایک ماہ کی مختصر مدت کیلئے چیئرمین پی سی بی مقرر کیا تھا۔