وزیرِاعظم صاحب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں فرمایا ”مجھے اُن لوگوں پر حیرت ہے جو پانامہ اور جے آئی ٹی رپورٹ پڑھنے کے بعد بھی لٹیروں کا دفاع کر رہے ہیں”۔ صاحب! پاکستان تو ہے ہی حیرت کدہ جہاں قدم قدم پر حیرتوںکی الف لیلوی داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔ سب سے بڑی حیرت تو یہ کہ بجائے اِس کے وزیرِاعظم 25 دسمبر کو قائدِاعظم کے یومِ پیدائش کے حوالے سے قوم کو اتحاد، ایمان اور تنظیم کی تلقین کرتے، اُنہوں نے اپوزیشن پرگند اچھالنے کو ہی ترجیح دی۔ قائدِاعظم کا وژن،حاکمیتِ اعلیٰ اللہ کی اور نیابت جمہور کی تھا لیکن تحریکِ انصاف نے اِن 125 دنوں میں جمہور کا جو حال کیا، اُسے دیکھ کر تو اللہ کی پناہ ہی مانگی جا سکتی ہے۔ تلخ حقیقت یہی کہ ماضی میںوزیرِاعظم جس ”سونامی” کی آمد کا بار بار ذکر کرتے رہے، وہ آچکی اور اُس کی تباہ کاریاں بھی نظر آنا شروع ہو گئیں ۔پچھلے 4 ماہ کے دَوران مہنگائی نے تاریخِ پاکستان کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے، سٹاک مارکیٹ متزلزل اور ڈالر 142 روپے کو چھو گیا جس سے ایک ہی دن میں 1000 ارب روپے کا نقصان ہوا لیکن وزیرِاعظم کے پاس اِس نقصان کاصرف ایک ہی ”مجرب” نسخہ یعنی صبر، صبر اور صبر۔ ظاہر ہے نئے پاکستان میں ہر چیز نئی ہی ہو گی۔ شاید خاں صاحب کے ذہن میں ہو کہ قائد کا احسان تو ہم ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں 16 دسمبر 1971ء کو اتار چکے، اب نئے پاکستان کی تشکیل ہورہی ہے اور وہ ”بقلم خودقائدِاعظم ثانی” ۔ اِس لیے قوم تھوڑا صبر کرے گی تو پھر ہی ”نیاپاکستان” بن پائے گا۔ ویسے بھی صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے، اگر قوم نے ”میٹھا پھل” کھانا ہے تو پھر اُسے صبر تو کرنا ہی ہو گا۔
حیرت تو یہ بھی ہے کہ بقول تحریکِ انصاف اپوزیشن ”ایویں خوامخواہ” نیب کو موردِ الزام ٹھہرا رہی ہے حالانکہ اُسے جوذمہ داری تفویض کی جاتی ہے، وہ اُسے بطریقِ احسن سرانجام دیتی ہے۔ سونامیے کہتے ہیں کہ پرویز مشرف نے نَیب تشکیل دے کر قوم پر ”احسانِ عظیم” کیا۔ اُن کے خیال میں نیب کی کارکردگی ہمیشہ بے مثل رہی۔ اُس کی پہلے دن سے ذِمہ داری اسٹیبلشمنٹ مخالف لوگوں کو ”سیدھا” کرنا تھا جو آج بھی ہے۔ پرویزمشرف دَور میں چودھری برادران اور دیگر لوگوں پر نیب کیسز بنائے گئے۔ جب وہ سیدھے ہو گئے تو ”کونسا کیس اور کہاں کا کیس”۔ یہ بھی نیب ہی کا کارنامہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے اندر سے ”پیٹریاٹ” تلاش کرکے اُنہیں ”کنگزپارٹی” میں شامل کیا گیاتاکہ وطنِ عزیز میں ”محب ِ وطن” افراد کی غالب اکثریت پیدا کی جا سکے۔ یہ پیٹریاٹ آج بھی حکومتی امور بڑی ”جانفشانی” سے سرانجام دے رہے ہیں۔
سونامیے کہتے ہیں کہ اب چونکہ حکومت تحریکِ انصاف کی ہے جس کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ۔ اِسی لیے نیب ”سلیکٹڈ وزیرِاعظم” کے حکم پر اپوزیشن کو سیدھا کر رہی ہے۔ جب تحریکِ انصاف کی حکومت نہیں ہو گی تو نیب یوٹرن لیتے ہوئے اُسے بھی سیدھا کر دے گی۔ اب اگر حکومتی عہدیدار میڈیا پر بیٹھ کر نیب کی کارکردگی کے بڑے فخر سے گُن گا رہے ہیںتو اپوزیشن کے پیٹ میں کیوں مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔
حیرت تو اِس بات پر بھی ہے کہ جسے اعلیٰ ترین عدلیہ ”مسلمہ کرپٹ” قرار دے چکی، وہی تحریکِ انصاف کا کرتا دھرتااور مدارالمہام۔ جس پر نیب کیسزوہ پنجاب حکومت کا سینئروزیر، جسے وزیرِاعظم اپنا چپراسی تک رکھنے کو تیار نہیں تھے، وہ وزیرِریلوے، جو چور اور ڈاکو تھا، وہ سپیکر پنجاب اسمبلی، جو آصف زرداری کا ترجمان تھاوہ تحریکِ انصاف کا ترجمان اور وزیرِاطلاعات، جو پیپلزپارٹی کا وزیرِقانون تھاوہ خاںصاحب کا مشیرِقانون (وہ اب مستعفی ہوچکا لیکن تحریکِ انصاف کے سارے کیسزمیں وہی وکیل)، جس جماعت کوکپتان کی زبان دہشت گرد قرار دیتے نہیں تھکتی تھی اُس کے ارکان وزارتوں کے مزے لوٹے ہوئے اور جو کبھی پیپلزپارٹی کا وزیرِخارجہ ہوا کرتا تھاوہی اب تحریکِ انصاف کا وزیرِخارجہ۔ ”اصلی تے وَڈی” تحریکِ انصاف تو کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ تو بھان متی کا وہ کنبہ ہے جو تحریکِ انصاف کی ”گنگا” میں دھُل کر ”پوتّر” ہو چکا۔
حیرت اِس بات پر بھی ہے کہ ہماری پارلیمانی سیاست غیرپارلیمانی الفاظ سے ”مزین” ہوتی اور سیاسی مخالفت ذاتی مخاصمت میں ڈھلتی جا رہی ہے۔ غیرپارلیمانی الفاظ کی ابتدا کپتان نے کی اور اب کیا حکومت کیا اپوزیشن، اِس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ شیخ رشید نے سیّدخورشید شاہ کے حوالے سے کہا کہ سکھر جیسے خوبصورت شہر میں اُس جیسا بدصورت انسان رہتا ہے۔ دَر جوابِ آں غزل رانا ثناء اللہ نے کہاکہ پنڈی جیسے خوبصورت شہر میںشیخ رشید جیسا بدصورت انسان بستا ہے۔
لال حویلی والا بھلا کب پیچھے رہنے والا تھا۔ اُس نے کہا ”جب رانا ثناء اللہ کا ذکر کرنا ہو تو مجھے پہلے بتا دیا کریں تاکہ میں مُنہ پر رومال رکھ لوں کیونکہ اُس کے ذکر سے بھی بدبو آتی ہے، اب باری ثناء اللہ کی ہے، دیکھیں اُن کے مُنہ سے کون سے پھول جھڑتے ہیں۔ مشاہداللہ خاں اور رانا ثناء اللہ شیخ رشید کو ”پنڈی کا شیطان” اور فواد چودھری کو ”جہلم کا ڈَبّو” کہتے ہیںاور جواباََ وہ بھی ایسے ہی غیرپارلیمانی الفاظ کا سہارا لیتے ہیں۔ گڑھی خُدابخش میں جیالوں سے خطاب کرتے ہوئے بلاول زرداری نے حکمرانوں کو ”آلِ یزید” کہہ کر مخاطب کیااور آصف زرداری نے کہا ”لاڈلے کے پھٹے ڈھولوں کو سوائے ٹی وی پر بکواس کے کچھ نہیں آتا”۔ تحریکِ انصاف کے فیصل واوڈانے دور کی کوڑی لاتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری نے ”پھٹے ڈھول” تو نوازلیگ کو کہا ہے۔
شاید واوڈا نہیں جانتے ہوں گے لیکن پوری قوم کو معلوم کہ اپوزیشن ”لاڈلا” عمران خاں کو کہتی ہے۔ امیرِجماعتِ اسلامی محترم سراج الحق نے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”ناشائستہ اور بَد زبانی کا کلچر ریاست کو بدبودار بنا رہا ہے”۔ کھلے عام غیرپارلیمانی الفاظ کے استعمال کی واحد وجہ تحریکِ انصاف ہے۔ اب ”جیسا کروگے، ویسا بھروگے ” کے مصداق اگر کپتان ماضی قریب میں ایسے غیرپارلیمانی الفاظ استعمال نہ کرتے تو شیخ رشید، فوادچودھری اور فیاض چوہان جیسے لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا ثبوت دینے کے لیے حدوں سے نہ گزرتے۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ تحریکِ انصاف میں ”سلیکشن” کا معیار ہی یہی ہو کہ جو جتنا بڑا ”بڑھک باز” اور بدتمیز، اُتنے ہی بڑے عہدے کا حقدار۔ اِسی لیے مراد سعید کو وزیرِ مملکت سے ترقی دے کر ”وَڈاوزیر” بنا دیا گیا۔ سوال مگر یہ کہ ہمارے ”بزعمِ خویش” رَہنماء نسلِ نَو کو کیا درس دے رہے ہیں اور اِس کا انجام کیا ہوگا؟۔
حیرت تو یہ بھی کہ سپریم کورٹ کے انتہائی معزز پانچ رکنی بنچ نے جس کیس میںمیاں نوازشریف کو تاحیات نااہل قرار دے کر گھر کا رستہ دکھایا، اُسی کیس میں احتساب عدالت نے اُنہیں باعزت بری کر دیا۔ مزید حیرت یہ کہ ایک کیس میں عدالت بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں میاں نوازشریف کو تاحیات نااہل قرار دیتی ہے جبکہ دوسرے کیس میں دوسری عدالت دوسرے بیٹے سے پیسے وصول کرنے کے جرم میں 7 سال قیدِ بامشقت کی سزا سناتی ہے۔
گویا پیسے لیں تو مجرم اور پیسے نہ لیں تو بھی مجرم۔ ہم چونکہ قانون دان نہیں، اِس لیے یہ قانونی گتھیاں قانون دان سلجھائیں یا احتساب عدالت کے معزز جج لیکن اتنا تو ہمیں بھی معلوم کہ محض مفروضوں کی بنیاد پر عدالتیں سزائیں نہیں سنایا کرتیں۔ ویسے بھی حسین نواز نے جس دَور میں العزیزیہ شروع کی، اُس وقت میاں نوازشریف وزیرِاعظم تھے نہ وزیرِاعلیٰ۔ یہی نہیں بلکہ وہ تو جَلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے اور پاکستان میں اُن کا شدیدترین دشمن پرویزمشرف حکمران تھا۔ ایسے میں مَنی لانڈرنگ ، کِک بیکس اور کرپشن کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر بھی حیرت ہے کہ اُنہیں سزا ہوگئی۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت نے میاں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزا سنائی جسے اسلام آباد ہائیکورٹ نے ”پھڑکا” کے رکھ دیا۔ اب اگر العزیزیہ ریفرنس میں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔