تحریر : پروفیسر مظہر ایجنڈا واضح ،”کچھ لو، کچھ دو”لیکن دونوں کے تصورات، خیالات اور مطالبات میں بعدالمشرقین۔ امریکہ کی نظرمیں پاکستان نااحسان سپاس جبکہ پاکستان کے خیال میں امریکہ قدرناشناس، اتحادی مگرج ہنم سے نکلا ہوا، دوست مگردشمن سے بدتر کہ بقول ہنری کسنجر امریکہ کی دشمنی بُری لیکن دوستی بہت بُری۔ اُدھر ہمارے فضاؤں میں بکھرے سارے خواب ادھورے کہ ہمارے سراسیمہ، نڈھال اور بدحال رہبر 68 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک خارجہ پالیسی کی نوک پلک سنوارنے سے قاصر، چین اور امریکہ کے درمیان ”سینڈوِچ” بنے کبھی اِدھ رکبھی اُدھر۔ جن پہ قوم کوتکیہ وہ بھوکے گدھ کہ اقتدار کی ہوس میں سب کچھ فراموش، ملکی سلامتی کی پرواہ نہ قومی وقارکی ،ساری تگ ودَوکا محور ومرکز حصولِ اقتدار۔ قوم حیراں وانگشت بدنداں کہ
خطروں نے جہاں دی نہ میری آنکھ بھی لگنے اُس شہر کا اِک شخص بھی بیدار نہ دیکھا
اسی اندرونی کشمکش اورافراتفری کا بوجھ اٹھائے وزیرِاعظم عازمِ امریکہ ہوئے جہاںاُن کا ”ٹاکرا” ابلیسیت کے اُن علمبرداروںسے جن کے دل میںایٹمی پاکستان کانٹے کی طرح کھٹکتاہے ۔امریکہ کاپہلا مطالبہ جوہری ہتھیاروںکو محدودکرنے کے گردہی گھومے گاجو پاکستان کے لیے ناقابلِ قبول کہ واسطہ بھارت جیسے پڑوسی سے جس کا ہر وزیرِاعظم ”اکھنڈبھارت” کانعرہ لگاکر اقتدار کے ایوانوںتک پہنچتاہے اوراب توبھارت کی تمام انتہاپسند ہندوتنظیموں کامتفقہ نمائندہ، نریندرمودی وزیرِاعظم جوسب سے بڑاانتہا پسنداور مسلمانوںکا بدترین دشمن ۔ 19 اکتوبرکو انتہاپسند شیوسینا نے پاکستانی کرکٹ بورڈکے وفدکے ساتھ جوکچھ کیاوہ سب کے سامنے۔ کیاامریکہ کے پاس بھارت کی کسی بھی ممکنہ جارحیت سے پاکستان کومحفوظ رکھنے کاکوئی حل ہے؟۔اگرنہیں توپھر کیاوہ پاکستان کی ایٹمی قوت کومحدود کرکے اُسے بھارت کا تَرنوالہ بنانا چاہتا ہے؟۔
United Nations
ساری عالمی طاقتیں مل کربھی بھارت کوکشمیر پر اقوامِ متحدہ کی ”استصواب رائے” کی قراردادوں پرعمل درآمد کے لیے مجبورنہیں کرسکیں، بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کاکیا خاک ساتھ دیںگی ۔ہمیں بھارتی جارحیت کاجواب دینے کے لیے کسی کی مددکی ضرورت نہیں، ہم ایٹمی قوت ہیںاور بوقتِ ضرورت جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے ہرگز گریزنہیں کریں گے۔
پاکستان بھارتی دہشت گردی اورجارحیت کے تمام ثبوت اوباماکے سامنے رکھ کرکشمیر سمیت تمام متنازع امورکے حل پرزور دے گا جواوباما کے لیے ناقابلِ قبول۔ اُس کالیت ولعل سے کام لینااظہرمِن الشمس کہ بھارت ٹھہرااُس کا اسٹرٹیجک پارٹنرجسے چین اورروس کے بڑھتے تعلقات سے خوفزدہ امریکہ اتنا طاقتور دیکھناچاہتا ہے کہ بوقتِ ضرورت کام آسکے۔ ویسے بھی دفاعی اور اقتصادی لحاظ سے مضبوط پاکستان امریکہ کوپہلے کبھی قبول تھا ،اب ہے نہ آئندہ ہوگا کیونکہ اُسے خطرہ ہے کہ گرم پانیوںپر حکمرانی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ مضبوط پاکستان ہی ہوگا۔
پاکستان امریکہ سے بھارتی طرزکے سول نیوکلئیر ٹیکنالوجی تعاون کامطالبہ بھی کرے گاجس کاٹکا ساجواب ملنے کی توقع کہ امریکی پالیسی سازوںکے ہاںتو پہلے ہی نیویارک ٹائمزکی اِس رپورٹ پرہلچل مچی ہوئی ہے کہ پاکستان ممکنہ بھارتی حملے کوروکنے کے لیے چھوٹے جوہری ہتھیار نصب کرنے جارہا ہے حالانکہ یہ” گُر” توپاکستان نے امریکہ سے ہی سیکھاہے جس نے روس کے امکانی حملے کوروکنے کے لیے یورپ میںچھوٹے جوہری ہتھیارنصب کیے تھے ،جواباََ روس نے بھی ایسے ہی جوہری ہتھیار کیوبامیں نصب کردیئے جس سے تیسری عالمی جنگ کاخطرہ سرد جنگ میںڈھل گیا۔ آج اگرپاکستان وہی حربہ آزماناچاہتا ہے توامریکی پالیسی سازچیں بچیںکیوں؟۔ شاید امریکہ ممکنہ تیسری عالمی جنگ کامیدان برِصغیر پاک وہند کوبنانا چاہتاہو ۔پاکستان کی طرف سے چھوٹے جوہری ہتھیاروںکی تنصیب سے بھارتی پالیسی سازوںکو کم ازکم اتناتو یقین ہوجائے گاکہ پاکستان بھارت کی کسی بھی ممکنہ جارحیت کامُنہ توڑجواب دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔
Pakistan
امریکہ کا پاکستان سے بنیادی مطالبہ یہ ہوگاکہ پاکستان افغانی طالبان کومذاکرات کی میزپر لانے کے لیے اُس کی مددکرے ۔ طالبان مذاکرات کے لیے تیارتو ہیںلیکن اِس شرط پرکہ پہلے تمام غیرملکی افواج افغانستان سے چلی جائیں۔امریکہ سمجھتاہے کہ پاکستان اِس” کڑی شرط” کے بغیربھی طالبان کومذاکرات کی میزپر لاسکتا ہے اور اگرایسا ممکن ہواتو افغانستان میںچودہ سالہ ہزیمت کے بعد باعزت واپسی کی کوئی راہ نکل آئے گی۔
نائن الیون کابہانہ بناکر 7 اکتوبر 2001ء کو جدیدترین اسلحے سے لیس60 ہزار امریکی فوجی افغانستان پرچڑھ دوڑے ،افغانستان میںشمالی اتحادکے ہزاروںجنگجو بھی ساتھ دینے آن پہنچے اوربرطانیہ بھی ۔ 2003ء میںدنیا کے 18 طاقتور ترین ملک بھی مددکو آگئے اور 2006ء میںمزید 46 غلامِ بے دام ممالک بھی۔ دنیاجہان کے ہرقسم کے جدیدترین اسلحے سے لیس لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ نیٹوافواج اور2لاکھ افغانی فوج 14 سال تک اُن نہتے افغان مجاہدین سے بَرسرِپیکار رہی جن کے پاس کوئی جہازتھا نہ ٹینک، بکتربند گاڑی تھی نہ ہیلی کاپٹر۔ پھرچشمِ فلک نے دیکھاکہ بدترین ہزیمت اُن کے حصے میں آئی جواپنی طاقت کے زعمِ بَدمیں گرفتارتھے اورسرخرووہ جن کایہ جزوِ ایمانی کہ ”مومن ہے توبے تیغ بھی لڑتاہے سپاہی”۔ آج نیٹوافواج کا70 ملکوںکا یہ ”اکٹھ” تِتربتر ہوچکا، باقی رہ گیاصرف امریکہ جسے واپسی کی کوئی راہ دکھائی دیتی ہے نہ سجھائی ۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میںبارک اوباما نے کہاکہ عالمی مسائل طاقت اوردولت کے زورپر حل نہیںکیے جا سکتے۔
اُس نے یہ اعتراف بھی کیاکہ امریکہ کو افغانستان اورعراق میں اِس کاتجربہ ہوچکا لیکن وہ یہ اقرارکرنا بھول گئے کہ بہت پہلے ویت نام کی جنگ میںبھی اُنہیںایسی ہی ہزیمت سے دوچار ہوناپڑا تھالیکن عالمی چودھری بننے کانشہ ہی ایساہے کہ امریکہ کوباربار ذلتوںکا سامناکرنا پڑتاہے پھربھی وہ باز نہیںآتا۔”تاریخ کاسب سے بڑاسبق یہ کہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیںکرتا”۔طالبان کومذاکرات کی میزپر لانے میںمدد کرنے کامطالبہ ہی وہ نکتہ ہے جس پرپاکستان اپنے مطالبات کی عمارت استوارکر سکتاہے۔ وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ امریکہ جواباََ پاکستان کوامدادکی پیش کش توکر سکتاہے لیکن باقی مطالبات پرٹال مٹول سے کام لے گاجبکہ دوسری طرف میاںنواز شریف امریکہ سے دوٹوک بات کرنے کے موڈمیں نظر آتے ہیں پاکستانی کشکول میںامریکی امدادکی تگ ودَومیں نہیں۔اِس لیے اُمیدِ واثق تویہی کہ وزیرِاعظم صاحب امریکی یاتراکے اختتام پریہی گنگناتے نظرآئیں گے۔
چل دوں ابھی تو روکنے والا نہیں کوئی کِن بے مروتوں کے یہاں آ گیا ہوں میں