تحریر : سید انور محمود پوری دنیا میں سفارت کاری کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ دو ملکوں کے تعلقات کا محورسفارت کاری ہی ہوتی ہے اور اس میں سفارتی آداب کا پورا پورا خیال رکھا جاتا ہے لیکن افسوس ریاض میں ہونے والی عرب اسلامک امریکن کانفرنس کے موقعہ پر پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ سعودی حکومت نے سفارتی آداب کا بلکل خیال نہیں رکھا۔سعودی حکام جانتے ہیں کہ نوازشریف اور سعودی حکمرانوں کے آپس میں ذاتی تعلقات ہیں، لیکن اسوقت نواز شریف ذاتی ملاقاتوں یا عمرہ کرنے سعودی عرب نہیں گئے تھے بلکہ وہ عرب اسلامک امریکن کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے، پاکستان اس کانفرنس کا اہم ملک تھا جس کو مکمل طور پرنظرانداز کیا گیا۔عرب اسلامک امریکن کانفرنس میں سعودی شاہ سلیمان اور امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے خطاب کے بعد کانفرنس مختصر کردی گئی ۔ یہاں تک کہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کا خطاب بھی منسوخ کردیا گیا۔ جبکہ پاکستانی وزیراعظم کے مقابلے میں مصر، انڈونیشیا اور کئی دیگر ممالک کوتقریر کا موقع دیا گیا۔ڈونلڈٹرمپ اور شاہ سلیمان نے اپنی تقریروں میں عالمی دہشتگردی کی جنگ لڑنے والے پاکستان کو مکمل طورنظرانداز کیا۔
عرب اسلامک امریکن کانفرنس میں نہ ہی پاکستان کی قربانیوں کا ذکر کیا گیا اور نہ ہی پاکستان کے وزیر اعظم کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع دیا گیا۔ دنیا میں سب سے زیادہ دہشتگردی کا شکار پاکستان ہوا ہے جس نے ستر ہزار انسانی جانوں اور 130 ارب ڈالر کا نقصان اُٹھایا ہے۔ لیکن امریکی صدر کی تقریر میں دہشتگردی سے متاثرہ خطوں میں پاکستان کے بجائے بھارت کا ذکر کیا گیا۔امریکی اور سعودی قیادت کا عرب اسلامک امریکن کانفرنس میں پاکستان کے حوالے سے خاموش رہنے کا کیا مطلب لیا جائے، کیا بھارت کو دہشتگردی کے خلاف لڑنے والا ہیرو تسلیم کرلیا جائے۔گلوبل سینٹر کے افتتاح پر بھی پاکستان کے وزیراعظم کو شامل نہیں کیا گیا ۔ دوسری جانب افغان اور مصری صدر اور بنگلہ دیشی وزیراعظم سعودی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ رہے لیکن پاکستانی وزیراعظم کہیں نظر نہ آئے ۔ پاکستانی وزیراعظم آخری صفوں میں بھی موجود نہیں تھے ۔ شاید سعودی شاہ بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کو بلانا بھول گئے ورنہ شاید امریکی صدر پاکستان کو ایک دہشتگرد ملک بھی کہہ دیتا۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کیساتھ تحقیر آمیز سلوک کیا پاکستان کی تحقیر کے مترادف نہیں؟ وہاں وہ نواز شریف کے طور پر نہیں بلکہ پاکستان کے وزیرِ اعظم کے طور پر موجود تھے پھر اس رویے پر احتجاج بھی ہونا ضروری ہے، بس افسوس اس بات کا ہے کہ ملک میں نہ تو کوئی وزیر خارجہ ہے اور نہ ہی ہماری خارجہ پالیسی بنانے والے بہتر لوگ ہیں۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ لیکن یہ بے عزتی وزیراعظم نواز شریف کی نہیں ہوئی ہے بلکہ پورئے پاکستان کے عوام کی ہوئی ہے۔
دسمبر 2015 میں دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے امریکی مشورئے سے سعودی عرب نےاپنی قیادت میں اسلامی ممالک کا ایک فوجی اتحاد ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس اتحاد میں ابتدائی طور پر 34 ممالک تھے۔لیکن اس فوجی اتحاد میں ایران، عراق اور شام شامل نہیں ہیں ۔ سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری نےاس اتحاد پر اپنی بھرپور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے “سنی اتحاد” کا نام دیا تھا۔ مسلم ممالک کی تعداد 57 ہے جبکہ سعودی عرب کے مطابق اس اتحاد میں اب تک 41 ممالک شامل ہوئے ہیں۔ سعودی قیادت میں بننے والے ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ میں ایران، عراق، شام اور دیگر شیعہ مسلک کے حامل ممالک شامل نہیں ہیں اور مسلم دنیا کے لیے اور خاص طور پر پاکستان کےلیے یہ صورتحال کسی طور پر مناسب نہیں ہے۔ اس اتحاد کی اصل قیادت امریکہ کررہا ہے، سامنے سعودی عرب موجود ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اپنی پوری انتخابی مہم میں کھلے عام مسلمانوں کو برا کہنے والا ڈونلڈ ٹرمپ سب سے پہلے سعودی عرب جاتا ہے، ڈیڑھ کھرب ڈالر کا اسلحہ بیچتا ہے اور اس اسلحہ سے کس کو نشانہ بنانا ہے یہ بھی بتاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امت مسلمہ سے خطاب کرتے ہوئے انکو سمجھاتا ہے کہ امن قائم کرنے کیلئے دہشتگردی کو لازمی ختم کرنا ہوگا۔ وہ کہتا ہے کہ ہم نے داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں کا خاتمہ کرنا ہے مگر دہشتگردی کا سب سے بڑا مددگار ایران ہے لہذا امت مسلمہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایران کو تنہا کردے ۔ کچھ ایسا ہی خطاب ہمارئے مسلم رہنما شاہ سلیمان کا بھی تھا۔ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور سابق پاکستانی فوج کے چیف اور اتحادی فوج کے ہونے والےسربراہ جنرل راحیل شریف بھی تقریر سننے کےلیے کانفرنس میں موجود تھے۔
عرب اسلامک امریکن کے حاشیے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی مسلمان ملکوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ ان میں خاص طور پر قطر، کویت، بحرین اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نمایاں تھے لیکن پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ ایک خبر چلائی گئی کہ ’’وزیر اعظم نواز شریف اور امریکی صدر ٹرمپ نے اسلامی امریکی سربراہی کانفرنس کے موقع پر مصافحہ کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے روایتی انداز میں گرمجوشی سے نواز شریف سے ہاتھ ملایا اور کہا کہ آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی جبکہ نواز شریف نے کہا کہ آپکے پہلے غیر ملکی دورے کیلئے سعودی عرب کا انتخاب قابل تعریف ہے‘‘۔ دوسری طرف عرب اسلامک امریکن کانفرنس کی رپورٹنگ کرنے والے پاکستانی صحافی مجاہد بریلوی کا کہنا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم اور امریکی صدر کے گرم جوشی سے ہاتھ ملانے کی خبریں افواہوں پر مبنی ہیں ۔ مجاہد بریلوی نے ایک نجی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جن صحافیوں نے کہا ہے ان دونوں ممالک کے سربراہان نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا تو انہوں نے ہی ایسا دیکھا ہوگا، ہم نے یہ منظر نہیں دیکھا۔
عرب اسلامک امریکن کانفرنس میں سب سے مظلوم ملک بھارت کو کہا گیا، کانفرنس کےسب سے محبوب ممالک مصر، بنگلہ دیش اور افغانستان تھے، جس دہشتگردملک کی نشاندھی کےلیے یہ کانفرنس ہوئی وہ ہمارا پڑوسی ملک ایران نکلا، باقی رہا پاکستان تو اس کو شاید اہمیت دینے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی ۔ سیاست سے بالاتر ہوکرسعودی عرب کی ان غیر سفارتی حرکتوں کے خلاف ہر پاکستانی احتجاج کرئے گا کیونکہ پاکستان کے وزیر اعظم کی بے عزتی ہر پاکستانی کی بے عزتی ہے۔جو سلوک پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ کیا گیا ہےوہ قابل مذمت ہے اور سفارتی آداب کے خلاف ہے لہذاحکومت پاکستان کو سفارتی سطح پر لازمی سعودی عرب سےاحتجاج کرنے کی ضرورت ہے۔