آخر کار خدا خدا کر کے چھ دن کے طویل صبر آزما تکلیف دہ دور سے گزرنے کے بعد ہزارہ کے متاثرین نے اپنے شہدا کی تدفین کر دی ‘ جنوری کی شدید سردی درجہ حرارت منفی ڈگری سے نیچے متاثرین کے لواحقین جس طرح دن رات کوئٹہ میں اپنے پیارو کی میتیں لے کر بیٹھے تھے ان کے غم میں ڈوبے چہرے جیسے زندہ لاشیں بیٹھی ہوں’ جس نے بھی اُن حسرت و پاس غم میں ڈوبے چہرے بچیاں عورتیں بوڑھے بچے دیکھے اُس کا دل جگر کٹ کر رہ گیا ساتھ ہی ہزارہ برادری پر پچھلے دو عشروں سے جو بار بار کر بلا مچائی جاتی ہے وہ زخم پھر سے ہرے ہو گئے انسانیت کے دشمنوں نے جس طرح پچھلے دو عشروں سے بے بس مجبور غریبوں پر ظلم بر بریت سفاکیت کے پہاڑ توڑے ہیں سنگ دل سے بھی سنگ دل انسان پگھل کر رہ گیا کہ پاکستان اسلام کے نام سے دنیا کے نقشے پر ستائیسویں کی رات معرض وجود میں آیا اُس پاک دھرتی میں کس طرح بے دردی سے نہتے مزدوروں کے ہاتھ پائوں باندھ کر آنکھوں پر پٹی باندھ کر اُن کو وحشت درندگی سے ذبح کر دیا گیا۔
اِن شہدا میں چھ بہنوں کا اکلوتا میٹرک پاس بھائی بھی تھا جو زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے مزدوری کر نے گیا ہو ا تھا اُس کی شہادت اور بہنوں کا دکھ درد بے چارگی پورا پاکستان لرز کر رہ گیا جس نے بھی یہ منظر دیکھا اُس کے اندر کربلا بر پا ہو گیا کہ اسلام کے نام پر بننے والا ملک جس کے عوام یہ خواب دیکھتے ہیں کہ ایک دن پاکستان میں اقوام عالم کے فیصلے ہو نگے اور مسلمان ممالک کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان اُس میں اِس طرح کی درندگی وحشت کہ درندوں کو بھی شرم آجائے ظلم کی انتہایہ کہ یہ واقع پہلی بار نہیں ہوا بلکہ بیس سال پہلے سے ہزارہ برادری پر وقفے وقفے سے ظلم وحشت کا پہاڑ توڑا جا رہا ہے بغیر کسی وجہ کے ان معصوموں سے زندگی چھین لی جاتی ہے جب بھی اِن بیچاروں کی لاشیں کھلے آسمان کے نیچے رکھ کر مدد مدد پکارتے ہیں ہر بار چند حکومتی لوگ جاکر جھوٹے دلاسے دے کر آجاتے ہیں یہ بے بس مظلوم حکومتی وعدوں پر اعتبار کر لیتے ہیں کہ آئندہ اِس کی نسل کشی نہیں ہو گی اِن کی حفاظت کا موثر انتظام کیا جائے گا۔
دہشت گردوں کا قلع قمع کر دیا جائے گا لیکن چند دن بعد پھر ہزارہ برادری کے لیے زمین مقتل گاہ بنادہ جاتی ہے اور پھر پہلے سے زیادہ درندگی اورسفاکیت سے بیچاروں کو شہدا کر دیا جاتا ہے بار بار ہزارہ برادری کی نسل کشی کے بعد اور ہر بار حکومتی وعدوں کے باوجود جب اِس بار پھر گیارہ معصوم انسانوں کو ذبح کر دیا گیا تو ہزارہ برادری کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ماضی کی طرح پھر حکومتی وزرا وزیر اعظم صاحب کے درباری وزیر اعظم صاحب کی نظروں میں سرخرو ہو نے کے لیے پھر وعدوں اور مالی مدد کا پلندہ لے کر مظلوم ترین لواحقین کے پاس گئے یہ اُن سے افسوس کر نے نہیں بلکہ ڈیل کرنے گئے تھے مسئلہ حل کرنے نہیں جناب وزیر اعظم صاحب کی نظروں میں سر خروہونے کے لیے کیونکہ ہزار ہ برادری کے لوگ دو عشروں سے اپنے پیاروں کو ذبح ہو تے دیکھتے آئے ہیں بار بار حکومتی درباریوں کے وعدوں کو بھی دیکھتے آئے ہیں اِس لیے اِن بیچاروں نے اِن درباریوں سے بات چیت نہیں کی اور گستاخی عظیم یہ کر دی کہ ہم آپ کی باتوں پر یقین نہیں کر تے اِس بار وزیر اعظم صاحب آکر ہماری دل جوئی کر یں گے ہماری نسل کشی کو روکنے کا ٹھوس پلان دیں گے تو ہم اپنے شہدا کی تدفین کریں گے۔
یہ درباریوں کے لیے گستاخی تھی کہ ہم آپ کے پاس چل کر آئے ہماری بات کیوں نہیں مانی جاتی کیونکہ اقتدار کی راہداریوں میں پھرنے والے یہ حشرات الارض اقتدار کے جھولوں پر بیٹھ کر خود کو اعلی نسل کے انسان سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اقتدار کا بخار ان کے سروں کو چڑھتا ہے تو گردنوں میں سریا آجاتا ہے اقتدار کے دستر خانوں کی بچی ہڈیاں چوسنے والے یہ موسمی بٹیرے بھول جاتے ہیں کہ یہ اقتدار کی ہوائیں سدا اِن کی حمایت میں نہیں چلیں گی یہ کب مخالف سمت میں چلنا شروع کر دیں پتہ ہی نہیں چلتا خالق نے اگر اقتدار کی چند ساعتیں اِن کو عطا کی ہیں تو یہ تو پانی کے بلبلے ہیں جو کسی بھی وقت بجھ سکتے ہیں لیکن اقتدار کے کوٹھے پر براجمان یہ درباری خود کو فرعون سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم خاص مٹیریل سے بنے ہیں ہم دوسروں پر حکمرانی کے لیے پیدا ہو ئے ہیں جب ہزارہ کے مظلوموں نے اِن رنگ برنگے درباریوں کی بات ماننے سے نکار کیا اور یہ گزارش کی کہ اِس بار جب تک محترم وزیر اعظم صاحب نہیں آئیں گے اُس وقت تک ہم اپنے پیاروں کی تدفین نہیں کریں گے تو اقتدار کے جھولوں پر جھولتے درباریوں کی شان میں گستاخی ہو گئی۔
لہجوں میں فرعونیت اُتر آئی فرعونیت اور بات چیت کا شاہانہ انداز وطن عزیز کے ٹی وی چینلز پر پوری دنیا دیکھ چکی ہے کہ غم میں غرق متاثرین کے ساتھ اِن درباریوں نے کن لہجوں میں کس طرح بات کی ‘ انا تکبر کے گھوڑوں پر سوار اِن درباریوں کے انداز گفتگو نے پورے پاکستان کو سراپا احتجاج بنا دیا پھر ہزارہ کے متاثرین کے غم میں شریک ہو نے کے لیے پورا پاکستان دھرنے میں تبدیل ہو گیا ایک ایک شہر میں کئی کئی جگہوں پر لوگ سراپا احتجاج بن گئے اقتدار کے نشے میں دھت درباریوں نے جواب دے دیا پھر اہل وطن پر اُس وقت تو حالت مرگ طاری ہو گئی جب اِن درباریوں کے اکسانے پر جناب وزیر اعظم صاحب نے بھی ماضی کی طرح بلا سوچے سمجھے ہزارہ کے متاثرین کو بلیک میلر کہہ دیا کہ وہ مجھے بلیک میل کر رہے ہیں جناب وزیر اعظم کے منہ سے نکلے یہ الفاظ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئے پورا ملک سلگ اٹھا یہاں تک کہ پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک احتجاجی دھرنوں کی فصل اگ آئی یہاں تک کہ چھ دنوں میں یہ پورا ملک مفلوج ہو کر رہ گیا۔
وزیر اعظم صاحب کے بہت چاہنے والے بھی پسپائی پر مجبور ہو گئے کہ بلیک میلر کے الفاظ کا دفاع کیسے کریں پورا پاکستان پہلے ہی احتجاج کی چتا میں بھڑک رہا تھا اِن الفاظ نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا محلہ محلہ شہر شہر احتجاجی دھرنوں کا سیلاب آگیا اِن حالات میں بھی وزیر اعظم صاحب ماضی کی طرح اپنے الفاظ پرڈٹے ایسے جن سے حالات مزید خراب ہو تے گئے یہاں تک کہ مقتدر حلقوں کی طرف سے وزیر اعظم صاحب کو ہزارہ برادری کے پاس جانے اور دل جوئی کا مشورہ دیا جو آخرکار وزیر اعظم صاحب نے مان لیا اِس طرح پورا ملک جو احتجاجی آگ میں جھلس رہا تھا پورا ملک مفلوج ہو کر رہ گیا وزیر اعظم صاحب کا ایک بار پھرقول و فعل میں شدید واضح تضاد نظر آیا کہ جو ساری زندگی یورپ کی مثالیں دیتے رہے یہ بھول گئے کہ جب نیوزی لینڈ میں مسلمانوں پر دہشت گردی ہوئی تو انگریز خاتون وزیر اعظم نے کس طرح عقل و دانائی محبت وشفقت سے مسلمان متاثرین کے پاس جاکر شلوار قمیض پہن کر دل جوئی کی اِس طرح نان مسلم خاتون وزیر اعظم نے پوری دنیا کا دل جیت لیا وزیر اعظم صاحب بلیک میلر کے الفاظ استعمال کر تے وقت یہ بھول گئے کہ متاثرین کے پاس جانے سے اُن کا قدبڑھ جانا تھا لیکن افسوس وزیر اعظم صاحب نے عوامی لیڈر بننے کا موقع کھو دیا اب بلیک میلر کے الفاظ ساری زندگی وزیر اعظم صاحب کا پیچھا کریں گے اور ان کے پاس جو اب کے الفاظ نہیں ہوں گے۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org