تحریر : قادر خان افغان وزیراعظم نے سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس پر اپنا جواب داخل کرادیا ۔ سلمان اسلم بٹ کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف کا جواب پڑھ کر سناتے ہوئے کہا گیا کہ بیرون ملک فلیٹس اور دیگر بتائی گئی جائیدادوں کا مالک نہیں ہوں اور نا ہی کسی آف شور کمپنی کا مالک ہوں جب کہ میرا کوئی بچہ میرے زیر کفالت نہیں ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ریگولر ٹیکس قانون کے مطابق ادا کرتا ہوں، 2013 کے گوشواروں میں تمام اثاثے ڈکلیئرڈ ہیں، ویر اعظم آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل نہیں قرار دیئے جاسکتے اس جواب پر چیف جسٹس نے وزیراعظم کے بچوں حسن، حسین اور مریم نواز کے اثاثے جمع نہ کرانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ آپ نے اس طرح کا رویہ اپنانا ہے تو ہم عدالت میں جمع ہی نہ ہوتے، جس پر سلمان بٹ نے کہا کہ وزیراعظم کے بچوں کے جواب بھی جمع کرانا چاہتے ہیں لیکن ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے ان سے رابطہ نہیں ہو سکا اس لئے مزید وقت دیا جائے۔
چیف جسٹس نے وزیراعظم کے وکیل کی جانب سے مزید مہلت مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کہ میڈیا پر عدلیہ کو برا بھلا کہا جا رہا ہے اس لئے اس کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنا چاہتے ہیں، عدالت نے وزیراعظم کو بچوں کے تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت پیر ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔ایک تاریخ مزید پڑ گئی ، تاریخ پر تاریخ ، تاریخ پر تاریخ پڑتی چلی جائے گی ۔ میڈیا میں اتنی جرات کہاں کہ وہ عدلیہ کو بُرا بھلا کہہ سکے ۔ عدلیہ کا نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ اس میں اصلاحات کرانے کی ضرورت کو اعلی عدلیہ نے بھی ہمیشہ تسلیم کیا ، کیونکہ عدلیہ نظریہ ضرورت کے تحت چلتی ہے۔ماضی میں عدالت نے منتخب وزیر اعظم کو توہین عدالت کے جرم میں گھر بھیج دیا تو سماعت ختم ہونے تک کی سزا دیکر نا اہل قرار دے دیا ۔ منتخب صدر نے اپنی جماعت کے نئے وزیر اعظم کو روکے رکھا کہ آپ نے سوئس حکام کو کرپشن کیس اوپن کرنے کی درخواست نہیں لکھنی۔
دنیا نے وکلا کا تماشہ دیکھا کہ مقدمے کو اتنا طویل لے گئے کہ وزیر اعظم نے اپنی قربانی دینی مناسب سمجھی ، دوسرے منتخب وزیر اعظم کو حکم دیا گیا ، انھوں نے بھی خط لکھنے میں تاخیر کی ، حیل و حجت بہانے ، چال بازیاں ، یہاں تک کہ جب خط لکھا گیا تو سوئس حکومت کے قانون کے مطابق حکومت کی جانب سے بند کئے گئے مقدمے دوبارہ اوپن کرنے کا وقت گذر چکا تھا اور پھر منتخب صدر نے کروڑوں ڈالر اور ہیرے کے ہار کی ملکیت کا دعوی کردیا کہ اب یہ ان کے حوالے کردی جائیں ۔اس طرح کی لاتعداد مثالیں ہیں۔ سابق چیف جسٹس ، ائیر پورٹ میں معروف خاتون کے بیگ سے شراب ( شہد) نکلنے پر سوموٹو ایکشن لے لیتے تھے ، لیکن بارہ مئی جس کے وہ خود عینی گواہ تھے ، اس کا کوئی سوموٹو نہیں ہوا ۔ اب انھوں نے خود اپنی سیاسی جماعت بنا لی ہے ۔ لیکن عوام نے ان کی پذائری نہیں کی ، کیونکہ ان کے تمام فیصلوں کے نتائج میڈیا میں شہرت کا حصول اور ایک مخصوص جماعت کو نشانہ بنانا رہا تھا ، ان کے تاریخی فیصلوں کی زد میں کبھی موجودہ وزیر اعظم اور ان کی فیملی نہیں آئی۔
Law
اعلی عدلیہ اپنے طے کئے ہوئے قوانین پر ہی چلتی ہے ، اگلی تاریخ پر میاں صاحب کے ایک بچے کے گوشوارے اگر جمع نہیں کرائے تو عدلیہ کیا کرلے گی ، پھر سخت ریمارکس دے گی ۔ کسی قانون میں یہ نہیں لکھا کہ کسی اور کے جرم کی سزا کسی دوسرے کو دی جائے ، پانامہ لیکس میں وزیر اعظم کا نام نہیں ہے ، ان کے اولاد کا بزنس بیرون ملک ہے ، کوئی شواہد نہیں ہیں کہ وزیر اعظم نے آف شور کمپنیوں میں ان کی معاونت کی ہو ، عدالتیں ، ثبوت کی بنیاد پر چلتی ہیں ، مفروضے عدالتوں میں نہیں چلتے ۔عینی گواہ ، دستاوزی ثبوت جب تک نہ ہو ، اس وقت تک عدالت فیصلہ نہیں دیتی ، پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اعلی عدلیہ سزا نہیں دے سکتی وہ ایک آئینی کردار ادا کرسکتی ہے ، سزا دینے کا اختیار ماتحت عدالتوں کو ہے ، اعلی عدلیہ ماتحت عدلتوں سے آنے والے مقدمات پر ہی اپنے فیصلے صادر کرتی ہے۔اگر میاں صاحب کی اولاد میں یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ انھوں نے اثاثے چھپائے ، آف شور کمپنیاں بنائیں ، تو کیا ان کے اگر یہ جرم ہوا ، تو ان کی سزا میاں نواز شریف کو ملے گی؟۔
مجھے تو یہ کلیہ سمجھ نہیں آتا ، یہ ضرور ہے کہ گوشواروں پر اگر عدلیہ مطمئن نہیں ہوتی تو وہ ایف آئی اے کو آرڈر دے گی کہ وہ تفتیش کرے یا پھر کسی حکومتی ادارے کو ہی کہے گی ، تو حکومت کے ماتحت ادارے کیا اتنے آزاد ہوچکے ہیں کہ وہ غیر جانبدارانہ انکوئری کرسکیں ، ہم نے تو برطانیہ کے نیک نام و شہرت یافتہ اسکاٹ لینڈ کا انجام حال ہی میں دیکھا ہے کہ پاکستانیوں نے تو وہاں بھی اپنا لوہا منوالیا اور مقدمات اسکاٹ لینڈ یارڈ کو واپس لینے پڑے ، اور ایک قتل مقدمے کا فیصلہ مسلسل موخر ہو رہا ہے ، اسی کیس کا اہم گواہ عثمان معظم کو پاکستان میں ضمانت بھی مل گئی ۔بلدیہ فیکٹری کی تفتیش کا انجام کیا ہوا ، سینکڑوں انسان زندہ جل گئے لیکن انھیں جلانے والے اور ان کے سرپرست آزاد ہیں ۔عمران خان کے دھرنے سے اتنا فائدہ اٹھایا گیا کہ ، نئے نئے ضمیر کے قیدی کو بھی ضمانت مل گئی ، کراچی کے میئر بلبلا رہے تھے ، ا نھیں بھی ضمانت مل گئی ، کراچی کو ‘ را ‘ ایجنٹوں سے پاک کرنے کے دعوے کرنے والے کے رہنما کوبھی رہائی کا پروانہ مل گیا۔
مائنس ون کرنے والے کو بھی خوش کردیا ان کے بھی رہنما مہنگی ترین گاڑی میں بیٹھ کر متوسط طبقے کی نمائندگی کیلئے پھر سے کمر بستہ ہوگئے ، سب خوش ہوگئے ، عدلیہ کوئی فیصلہ نہیں کرسکی ، کسی کو سزا نہیں ہوئی اورنہ کوئی بے گناہ ثابت ہوا ۔ اب عدلیہ کیا کرے ، توہین عدالت پر وزیر اعظم کو گھر بھیجنے والی عظیم طاقت ، جو خود کو ایمپائر کہتی ہے ، درست کہتی ہے کہ عوام کی نظریں اب عدلیہ پر ہیں ، مسلسل سماعت کے دعوے ہیں ، وقت کم ہے مقابلہ سخت ہے ۔ کیا عدلیہ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ پہلے وزیر اعظم سے تلاشی کا عمل شروع کرے گی ۔یا سب سے پہلے ان سے جنھوں نے انگلی اٹھائی ہے ۔ یا پھر جتنے نام پانامہ لیکس میں آئے ہیں ، ان سب کی انکوئری کیلئے مشترکہ کلیہ بنایا جائے گا ، اٹارنی جنرل کے ذریعے حکم نامے جاری ہونگے ، لیکن یہ اٹارنی جنرل کس کے اختیار کے تحت کام کرتے ہیں ، ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ کبھی اٹارنی جنرل استعفی دے دیتے ہیں تو کبھی مصروف ہوجاتے ہیں ، کبھی بیمارہو جاتے ہیں۔ وقت گذرتا چلا جاتا ہے اور پھر کوئی فیصلہ سامنے نہیں آتا۔
Imran Khan
عمران خان بھی پاکستان کے عدالتی نظام سے بخوبی واقف ہیں ، اب انھیں سپریم کورٹ کی جانب سے سماعتوں کے فیصلے تک انتظار کرنا ہوگا ، انھیں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ ان کی پسند یا ناپسند کا وقت گزر چکا ہے ، اب انھیں کم ازکم اس بات پر عمل کرنا ہوگا کہ یہ ان کا آخری دھرنا ہوگا ۔ انھوں نے کئی بار کہا کہ ہم کشیتاں جلا کر آئے ، پچھلی بار بھی وہ کشتیاں جلا کر آئے تھے ، اس بار بھی وہ کشتیاں جلا کر آئے ، اس پر ایک عقل مند کہہ اٹھے کہ ہر بار وہ نئی کشتیاں لے لیتے ہیں ، پرانی جلا دیتے ہیں ۔ اب جو بھی ہے ، جیسا بھی ہے ، جس حالت میں ہے ، ایسے قبول کرنا ، عمران خان کے لئے فرض ہوچکا ہے ، وہ ایس ایم ایس پر یا ٹویٹ پر اب نہیں لکھ سکتے کہ مجھے قبول نہیں ،عدلیہ کس دائرہ اختیار سے اس معاملے کو کتنے سالوں بعد منطقی انجام تک پہنچائے گی بھی یا ہم سب کو ملکر صبر کرنا ہوگا ۔کیونکہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے ، لیکن پھر وہی عقل مند کہتا ہے کہ ایسے صبر بھی لعنت کہ اتنا انتظار ہو کہ پھل ہی خراب ہوجائے ۔پاکستانی نظام میں تمام اداروں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
ایوان بالا ہو کہ ایوان زریں ، پہلے وہ خود کو با اختیار بنائیں ،چند افراد کی کمیٹی کے بل چوں چرا کئے منظور کرلئے جاتے ہیں ، کھربوں روپے خرچ کرکے قوانین بنانے کے بجائے ہمارے نمائندے گلیوں کے گندے نالے ، سڑکیں اور کچرے صاف کرتے ہیں ، عجیب بات ہے۔ آئین ساز ادارے گلیاں میں جھاڑو لگوانے کیلئے ووٹ لیتے ہیں کہ ملک کو درپیش مسائل سے باہر نکالنے کیلئے منصوبہ سازیاں کرتے ہیں۔ عوام کو اختیارات دیتے ہیں کہ پہلے اپنے لئے پرمٹ ومراعات لیتے ہیں ۔یہ ہے جمہوری نظام ، جہاں بندوں کو گنِا جاتا ہے تولا نہیں جاتا ، یہ کہتے کہتے تو اقبال چلے گئے ، لیکن انگریز اپنی اولاد یہاں چھوڑ گئے ۔ اب ہمیں جمہوریت میں یہ سب تو برداشت کرنا ہوگا۔
عمران خان اور ان کے کھلاڑیوں کو بھی انتظار کرنا ہوگا ۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ہوگا تو کچھ بھی نہیں ، اگر ہو بھی گیا تو کیا ہوگا ، مرضی تو سیاست دانوں کی ہی چلی گی نا ۔جموریت میں اختلاف رائے کو حسن کی دیوی کہا جاتا ہے ،تحریک انصاف کو بھی اس حسن کی دیوی کو دل میں بیٹھانا ہوگا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی معجزہ ہوجائے ، 58-2/Bتو رہی نہیں ، اب 62/63رہ گئی ہے ، یا توہین عدالت ۔ تو چلو اب یہ رسم بھی نبھا کر دیکھتے ہیں ۔ عمران خان کو تو چھوڑیں ، عوام تو ہر بار توقع اس طرح کئے بیٹھی ہے کہ ایک پانی کی چھلنی والے برتن کے بھرنے میں پانی بھر جائے گا ۔ اس لئے ہم بھی ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ ملکر کہتے ہیں، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔