جنازہ خریدا کفن بیچ ڈالا

Petrol Price

Petrol Price

تحریر : ساجد حبیب میمن

جب کسی نیوز چینل میں یہ خبر چلتی ہے کہ وزیراعظم نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دیدی ہے تو خدا کی قسم ایسا محسوس ہوتاہے کہ کسی آدمی نے اپنے عزیز کے قتل کے بعد اس کے پوسٹ مارٹم کی منظوری دیدی ہو،ہارے رے مہنگائی آج یہ جملہ اس قدر مقبول وعام ہوچکاہے کہ جو تحریک انصاف کی 23 سالہ۔ تبدیلی کے نعرے کو صرف 9 ماہ کے اندر ہی اپنی مقبولیت میں بہت پیچھے چھوڑ گیاہے ،آج جس انداز میں ڈالر کی قیمتوں کو پر لگاہوا ہے اس کی بات کرتے ہوئے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کیونکہ ڈالر کی قیمت میں شاہانہ اضافہ ہمارے غریب پرور پاکستانی روپے کی عزت کو دن رات خاک میں ملانے پر تلا ہواہے ،ہمارے جیب میں پڑا ہوا ایک ہزار کا نوٹ نہایت ہی شرمندہ اور شرمسار سادکھائی دیتاہے ، اس پر اس ملک کے غریبوں کا مذاق اڑانے کے لیے تبدیلی سرکار نے اپنے عظیم ارسطووں کو ہمارے سر پر مسلط کررکھاہے ،اب تو رمضان شریف بھی ہمارے گھروں میں داخل ہوچکاہے جس کے لیے حکومت کے تو کیا کہنے ضلعی انتظامیہ کے کچھ رشوت خور افسران کی ملی بھگت سے منافع خور اور اور زخیر ہ اندوزوں کی بھی خوب چاندی ہونے والی ہے ،گزشتہ دنوں ایک مقامی اخبار میں وفاقی وزیرآبی وسائل فیصل واوڈا کا بیان پڑھ کر دل کو بہت دکھ پہنچا لگژری گاڑیوں اور گھروں میں رہنے والا یہ وفاقی وزیرفرمارہاتھا کہ عوام 200روپے لیٹرپیٹرول کی قیمت کو بھی برداشت کرلے گی۔

میں حیران ہو ں کہ اتنی بڑی بڑی باتیں اور اتنے بڑے بڑے دعوے کرنے والی یہ حکومت اتنی جلدی اس قدر بے وقوقی کی باتیں بھی کرنے لگے گی ،یہ موصوف کچھ دن پہلے بھی قوم کو چونا لگاکر جاتے رہے ہیں جب انہوںنے کہاتھا کہ اس ملک میں نوکریوں کی بارش ہونے والی ہے جبکہ ان دنوں ایک وزیر جو ایک کروڑ نوکریوں کا الارم لگاکر نو ماہ تک سوتے رہے اور جب آنکھ کھلی تو استعفیٰ دیکر گھر چلے گئے تھے ،خیر میں محترم فیصل وواڈا کو صاحب کو اپنی اس تحریر کے زریعے ان کو یہ بتاتا چاہتاہوں کہ جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتاہے تو کس طرح سے عوام کی زندگیوں میں اندھیرا چھاجاتاہے کس طرح سے ایک انسان کی زندگی متاثر ہوتی ہے ،جب تحر یک انصا ف کی حکومت نے 2018میں اقتدار سنبھالا تھا اس وقت پیٹرول کی قیمت 95روپے 24پیسے تھی آج جب میں یہ تحریر لکھ رہاہوں اس وقت فی لیٹر 108روپے تک جاپہنچی ہے یعنی حکومت نے صرف 9ماہ کے اندر چار مرتبہ پیٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا ،اور اس کے ساتھ ساتھ جس انداز میں ادویات ،سبزیوں ،اشیاء خوردونوش اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میںہوشربا اضافہ ہوا وہ نہ ہی پوچھے تو بہتر ہوگا مگر میں محترم وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا صاحب کو یہ بتانا چاہتاہوں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے کس طرح سے مہنگائی جنم لیتی ہے۔

کچھ دن پہلے ادوایہ ساز کمپنیویوں نے ہر دوا کی قیمت کو دوگنا زیادہ بڑھاد یا تھا جس پر جب عوام کی چیخوں و پکار آسمان کو چھونے لگی تو وزیراعظم صاحب اور متعلقہ وزارت کو ہوش آیا اور پھر سننے میں آیا کہ جگہ جگہ ادویات بنانے والی فیکٹریوں اور اس کااسٹاک جمع کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے مگر یہ کیا دو روز بعد رات گئی اور بات گئی والا معاملہ حل ہوگیا ،عوام کو نوکریوں کی بارشوں میں بھیگنے کے لیے چھوڑ دیا گیااس نئے سوشے کے بعد ادویات کی قیمتوں میں دو کی بجائے تین گناہ اضافہ کردیاگیایعنی ایک میڈیسن کی ڈبیاں جو تین سو روپے کی تھی وہ ان ظالموں نے ساڈھے چار سو روپے تک کردی یعنی ادویات کسی بھی مرض کے لیے ہو ان کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ کردیا گیا کہ وہ انسان جس کے لیے اس دور میں جینا مشکل ہوگیاتھا اس کے لیے خودکشی کو بھی ایک مہنگا ترین عمل بنادیا گیا تھا،دوستوں یہ تو تھی ادویات کی بات اب چلتے ہیں آٹا ،گھی ،دالیں ،مصالحہ جات ،دودھ اور گوشت کی قیمتوں کی طرف تو میری تحریر کو پڑھنے والے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ یہ سب کچھ کس بھا پر بک رہاہے اس قدر مہنگائی ہوگئی ہے کہ مت پوچھیے ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں اشیاء خوردونوش کی تمام چیزیں 124فیصد مہنگی ہوچکی ہیں ،گیس 85فیصد مہنگی ہوئی ،چکن دس فیصد ،آلو چھ فیصدجبکہ پیاز اور ٹماٹر کی قیمتوں نے تو سب کو ہی پیچھے چھوڑ دیاہے اسی طرح تمام کھانے پینے کی چیزوں نے ایک دوسرے سے زیادہ مہنگی بکنے کے لیے ریس لگارکھی ہے اس کے علاوہ اس ملک میں تعمیراتی کاموں کی اشیاء میں بھی دس گناہ اضافہ ہواہے جس کی شرح میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

دن رات محنت کرنے والے ایک انسان کو جب سارے دن کی کڑی مشقت کے بعد بھی دو وقت کی روٹی نہ مل سکے تو ہ کس طرح سے اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں تعلیم دلوانے کے قابل ہوسکتاہے او ر کس طرح اس کے بچوں کا علاج کسی اچھے ہسپتالوں میں ممکن ہوسکتاہے؟ ،مگر جو لوگ ان مزدورں کے سروں پر سوار ہوکر دنیا جہاں کی دولت اکھٹی کرلیتے ہیں ان کی نہ صرف تمام تر آسائشیں پوری ہوجاتی ہیں بلکہ ان کے پاس تو اتنا وقت بھی آسانی سے مل جاتاہے کہ وہ مزدوروں کا عالمی دن بہت شان وشوکت سے منالیتے ہیں ،افسوس کہ آج ہمیں حکمران بھی ایسی ہی طبیعت کے میسر ہیں۔

ایک غریب آدمی جب شدید محنت کے بعد کچھ روپے بچابھی لیتاہے تو وہ رقم اس قدر تھوڑی ہوتی ہے کہ ا س سے اس کے گھر کا چولہا جلنا تو دور کی بات وہ آدمی اپنے لیے کوئی ڈھنگ سے دوا بھی نہیں خرید پاتا، ہاں اس در د کو ہمارے وفاقی وزرا کیا جانے کیونکہ ان کے گھر وں میں تو اس قسم کی چیزوں کا استعمال بطور تحفتاً ہی پورا ہوجاتاہے انہیں کیا پتہ کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ضافے سے کس طرح ایک مریض کی جان کو خطرہ ہوتاہے اور کس طرح سے ایک غریب کا چولہا بجھ جاتاہے ،جہاں تک 200روپے لیٹر پیٹرول کی بات ہے تواس میں حکومت کے یقینی طورپر آئندہ ارادوں کا عمل داخل ہے کہ کچھ تو ہونے والا ہے اور وہ کچھ اچھا نہیں ہوگا بلکہ بہت بھیانک ہوگا کیونکہ اس عمل کے بعد ایک گورکن جواس مہنگائی کے مارے مردے کی تدفین کرتاہے اس کی قبر کی کھدائی کی فیس میں بھی اضافہ ہوگیاہے اور اس کے ساتھ کفن کے ریٹ بھی بڑھ چکے ہیں۔ یعنی حکومت نے ایک غریب آدمی کو اس نہج پر جا پٹخا ہے جس پر ایک شاعر نے تحریک انصاف کی حکومت کو ایک صدی پہلے آنے سے پہلے ہی بھانپ لیا تھا اور اپنا ایک عدد شعر بھی ایڈوانس میں چھوڑدیاتھا یعنی وہ شاعر کیاخوب فرماتے ہیں ۔ مٹ کر بھی میری قسمت سے عریانی نہ گئی ۔ جنازہ خریدا کفن بیچ ڈالا ۔ختم شد

Sajid Habib Memon

Sajid Habib Memon

تحریر : ساجد حبیب میمن