وزیراعظم عمران خان سے لبنانی ہم منصب سعد الحریری نے ملاقات میں یہ شکوہ کیا ہے کہ شریف خاندان کو مشرف سے معافی دلوانا ان کی سب سے بڑی غلطی تھی نوازشریف نے جو کمٹمنٹ کی تھی انہوں نے وہ پوری نہیں کی جس کے باعث انہیں شدید شرمندگی بھی اٹھانا پڑی ہے ، جب وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف کی جانب سے ایک بار پھر این آراو کی بازگشت ہے تو اس پر سعدالحریری نے اس طرح سے دونوں ہاتھ اٹھادیئے جیسے وہ ماضی کو یاد کرکے پچھتارہے ہوں،اس خبر سے مسلم لیگ ن کی اس دروغ گوئی کا پتہ چلتاہے جو وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں یعنی یہ لوگ نیشنل ہی نہیں بلکہ انٹرنیشل چور ہیں اور پاکستان سمیت دنیا بھرکے معززلوگوں کو مطلوب ہیں یہ سچ ہے کہ دسمبر 2000میں نوازشریف اور ان کی فیملی کا ایک ایگریمنٹ ہواتھا جبکہ نوازشریف کا کہناتھا کہ ان کو اور ان کی فیملی کو زبردستی ملک سے باہر بھیجا گیا تھا مگرجو لوگ پاکستان کی سیاست کو غیرجانبدرانہ انداز میں دیکھتے ہیں ان پر واضح تھا کہ دسمبر2000میں نوازشریف کو ملک سے باہر بھجوانے میں کچھ سعودی فیملی کی شخصیات اورخاص طورپر لبنانی وزیراعظم سعدالحریری کا ایک بڑاکردارتھا یہ وہ شریف خاندان کے محسن تھے جو آج نوازشریف کا نام سنتے ہیں۔
دونوں ہاتھ ایسے اٹھالیتے ہیں گویا شرمندگی محسوس کررہے ہو،یہ ہی وہ اگریمنٹ تھا جس میں نوازشریف اور ان کی فیملی کو 10سال کے لیے ملک سے باہر بھیج دیاگیا تھاجبکہ نوازشریف نے اس ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 2007میں ہی پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیااور پھرانہوں نے 2008کے انتخابات میں حصہ بھی لیامگر وطن واپس آنے والے نوازشریف نے قوم کے سامنے اپنی جھوٹی صفائیاں پیش کرنی شروع کردی تھی اور یہ کہنا شروع کردیاتھا کہ انہوں نے جلاوطنی کے سلسلے میں کوئی دس سالہ ایگریمنٹ نہیں کیا تھامگر اس کے ساتھ ہی ان کے قریبی حلقوں نے یہ بھی کہنا شروع کردیا تھا کہ معاہدہ دس سال کا نہیں بلکہ پانچ سال کا ہواتھامگر لبنانی وزیراعظم کے اس بیان نے ایک بارپھر سے اس بات کو ثابت کیا تھا کہ میاں نوازشریف ان کی سفارش کی بدولت رضاکارانہ طورپر ہی دس سال کے لیے ملک سے باہر گئے تھے۔
سعدالحریری بے شک ہی نوازشریف کی وعدہ خلافی کو دل میں لیے بیٹھے تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کا وزیراعظم عمران خان کے ساتھ اس انداز میں برتاؤتھا کہ جیسے وہ ایک ایسے شخص سے ملاقات کررہے ہیں جس سے ملنے کو وہ خود بھی برسوں سے بے تاب تھے وزیراعظم عمران خان نے لبنانی وزیراعظم سے ہونے والی ملاقات میں پاکستان کے لیے جو کدورتیں تھی وہ سب داغ دھودیئے ہیں بلکل اسی طرح وہ تمام مسلم ممالک اور دیگر ممالک کے شکایتیں دور کرتے ہوئے آگے کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں،وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے عرب اور گلف ریاستوں سے پاکستان سے تعلقات کو بہتر کرنے کی کوششوں پر زور دیاہواہے جو مسلم لیگ ن کی حکومت میں بری طرح سبوتاژ ہوئے تھے، یہ اس قدر آسان کام نہیں تھا مگر عمران خان کی شخصیت پوری دنیا کی ریاستوں کے سربراہوں کے سامنے ایک مقناطیسی شخصیت کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ وہ گفتگو بہت واضح الفاظ میں کرتے ہیں اور دوسرے ممالک کے قائدین کو یہ بات بھی معلوم ہے کہ عمران خان پر کرپشن کا الزام نہیں لگ سکتاجو اپنے ملک میں بھی کرپشن کو روکنے کے لیے کام کررہاہے۔
ان وجوہات کی بنا پرامید یہ ہی کی جارہی ہے کہ خلیجی ریاستوں سے بھی لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے آئینگے یہ وہ ممالک ہیں جو شریف خاندان کی مسلسل سیاست کی وجہ سے پاکستان سے نالاں ہیں مگر اب پاکستان سے دوستی اور اتحاد کی فضاء نے جنم لینا شروع کردیاہے جس کے لیے جہاں وزیراعظم عمران خان کو کریڈٹ جاتاہے وہاں وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی عظیم جدوجہد بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے عمران خان نے یواے ای اور سعوی عرب سے بھی ناراضگیوں کو دوستی میں بدل دیاہے یہ ہی وجہ ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ساتھ ایک بڑے وفد کو لیکر پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں اوراس سلسلے میں کم ازکم سعودی عرب کی جانب سے پاکستان سے 10ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی متوقع ہے جو پاکستان کی عوام کوخوشحالی دینے کے لیے ایک بڑاقدم ثابت ہو گا۔
لہذا پوری دنیا یہ جان چکی ہے کہ پاکستان اب ایک بار پھر سے ترقی کی منزلوں کو چھونے جارہاہے اس کے برعکس پاکستان میں موجود کچھ سیاسی شرپسندوں کی جانب سے عوام کو اکسانے کا سلسلہ بھی جاری ہے جو یہ بدگمانیاں پھیلانے میں مگن ہے کہ گویا تحریک انصاف کی حکومت چھ ماہ میں مکمل طورپرناکام ہوچکی ہے مگر ایسا نہیں ہے یہ قوم اس قدر بے وقوف نہیں ہے کہ جو شریفوں اور زاداریوں کی مکاریوں کو نہ سمجھ سکیں اور قوم یہ بھی جانتی ہے کہ اس ملک میں 35سے چالیس سالوں کا گند چھ مہینے میں صاف ہونے والا نہیں اپوزیشن جماعتوں کے کچھ مطلوب سیاستدانوں کو جہاں حکومت کی مثبت کارکردگی پرجلن کا سامنا ہے وہاں ان کو ایک اور پریشانی بھی لاحق ہے کہ وہ کسی نہ کسی انداز میں اپنے سیاسی آقاؤں کا تحفظ بھی چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے قائدین کے خلاف کیسوں اور بھیانک جرائم کو عمرے کی سعادت میں بدل دیا جائے یہ وہ لوگ ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے سودے بازی کی سیاست سے بچتے چلے آئے ہیں اور اس بار بھی انہیں یہ ہی گمان ہے کہ شاید وہ اس بار بھی اپنی چوری کا مال چھپانے میں کامیاب ہوجائینگے اور سزاؤں سے بھی بچ جائینگے ۔موجودہ حالات میں 2018 -19میں بھی نوازشریف کو کچھ ایسی ہی کیفیات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کچھ این آر او ایکسپرٹس کو اس دھندے میں لگارکھاہے جو اپنی زاتی حیثیت سے دونوں طرف سے سیاسی اثرورسوخ رکھتے ہیں اور انہیں بچانے کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو نہ صرف پی ایم ایل این سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی ان کوششوں میں شامل ہوسکتے ہیں جن کے تعلقات کسی نہ کسی انداز میں حکومت سے جڑے ہوسکتے ہیں جو اس انتظارمیں ہیں کوئی اشارہ ملے تومعاملے کو مزید آگے بڑھایا جائے، اس طرح بہت سے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ترکی کے صدر کی جانب سے اس معاملے میں کوئی اشارہ ملاہے مگر سچ پوچھیں تو یہ باتیں اشاروں تک تو ہوسکتی ہیں مگر جو ممالک پاکستان سے محبت کرتے ہیں وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں کرپٹ لوگوں کا قبضہ رہاہے اور جن کی سیاست کے خاتمے کے بغیر پاکستان کبھی ترقی نہیں کرسکتا اس کے ساتھ اس ملک کے وزیراعظم عمران خان ایک ایسی سوچ کا آدمی ہے جو کرپشن کے معاملے پر کسی بھی لحاظ سے سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے،جن کا موقف واضح ہے کہ عدالتوں کی جانب سے ملنے والی سزاؤں پر وہ مکمل طورپرعملدرآمد کرواکر رہے گے۔
جبکہ وزیراعظم عمران خان اس قسم کی باتوں کو سفارشیوں کے سامنے نہیں بلکہ عوام میں کہہ ڈالتے ہیں حالیہ ایک بڑی تقریب میں عمران خان نے پوری قوم کو یہ بات واضح کردی تھی کہ وہ کسی لٹیرے کو این آر دینا ملک سے غداری سمجھتے ہیں ،لیکن عمران خان کے واضح انکار کے باوجود بھی کچھ لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے عدالت سے میاں نوازشریف کی ضمانت منظور ہوجائے تو وہ پھر عدالت سے ہی درخواست کرینگے کہ نوازشریف کو علاج کے لیے باھر جانے کی اجازت دی جائے ،اس سلسلے میں کچھ لوگوں نے یہ بھی بات اٹھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر شریف فیملی اس ملک کالوٹا ہوا پیسہ واپس کردے تو کیا ان کی مکمل آزادی بحال ہوسکتی ہے ؟۔ یہ سب باتیں خاموشی یا بلاواسطہ تو چل سکتی ہے لیکن پی ٹی آئی اور عمران خان کی واضح پالیسی کی وجہ سے شریف خاندان کی گلو خلاصی کسی بھی لحاظ سے ممکن نظر نہیں آتی اس ساری صورتحال میں اگر مسلم لیگ ن عدالت سے شریف خاندان کی ضمانت کروانے میں کامیاب ہوبھی جاتی ہے تو اس صورت میں تحریک انصاف کی حکومت اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جاسکتی ہے اس لیے یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان ہر لحاظ سے قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لینے میں پرعزم ہیں اور یہ کہ اس قدر آسانی سے عمران خان شریفوں اور زرداریوں کی جان چھوڑنے والا نہیں ہے ۔آپ کی فیڈ بیک کاانتظارہے گا۔#