تحریر: آصف خورشید رانا موجودہ مدت اقتدار میں یہ نواز شریف کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے چوتھا خطاب تھا لیکن سب سے جامع، مدلل اور بلاشبہ بہترین۔ تین برسوں میں پہلی بار محسوس ہوا کہ وزارت خارجہ میں کوئی زیرک شخص بھی موجود ہے۔ کشمیر کے لیے فیکٹ فائنڈنگ مشن کی تجویز اور خصوصاً برہان وانی کا ذکر اور کشمیری تحریک آزادی کو فلسطینی تحریک آزادی کے مماثل قرار دے کر بہترین سفارتی زبان میں دنیا کو کشمیر کی جانب متوجہ کیا گیا ہے۔میاں نواز شریف نے عالمی برادری پر واضح کر دیا کہ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر امن کا قیام محض خواب ہے۔
کشمیر پر موجوداقوام متحدہ کی قراردادوں پر بھی یاد دہانی کرواتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل اپنی قراردادوں پر عمل کروائے۔کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر بھی بھارت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت خواتین ،بچوں سمیت کشمیریوں کو پیلٹ گنوں سے نابینا کر رہا ہے ، خطے میں جاری بھارتی جنگی جنون کے حوالہ سے بھی بھرپور انداز میں اپنا موقف پیش کیا کہ پاکستان اسلحہ کی دوڑ کے خلاف ہے لیکن بھارتی خریداری نظر اندازنہیں کر سکتے اور قابل اعتماد ”ڈیٹرنس” برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کے اقدامات کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
آپریشن ضرب عضب پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ دہشت گردی کے خلاف یہ دنیا کا سب سے بڑا اور کامیاب آپریشن رہا تاہم اس کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کو بیرونی مدد حاصل ہے جس پر عالمی برادری کو توجہ کرنا ہو گی۔ بھارت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امن چاہتے ہیں ایٹمی تجربات پر دو طرفہ معاہدے کے لیے بھی تیار ہیں لیکن بھارت کی جانب سے پیشگی شرائط قابل قبول نہیں ۔ایٹمی تجربات روکنے پر بھی مذاکرات کے لیے بھی تیار ہیں لیکن عالمی برادری کو یہ بھی یاد دلایا کہ پاکستان نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کا حقدار بھی ہے۔
Kashmir Issue
میاں نواز شریف نے گزشتہ سال جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جنوبی ایشیا میں قیام امن اور بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے چار نکاتی فارمولا پیش کیا تھا ۔جن میں پہلا نکتہ یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کو 2003 کے لائن آف کنٹرول پر مکمل جنگ بندی کے معاہدے کا احترام کرتے ہوئے اس پر عمل کرنا چاہیے۔ دونوں ملکوں میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرگروپوں کومزید فعال کیا جائے۔دوسرانکتہ تھا کہ پاکستان اور بھارت کسی بھی طرح کے حالات میں طاقت کا استعمال نہیں کریں گے۔ یہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کا مرکزی حصہ ہے۔تیسرے نکتے کے مطابق کشمیر سے افواج کا انخلاء کر کے اسے غیر عسکری علاقہ بنانا۔چوتھا اور آخری نکتہ تھا کہ دونوں ممالک دنیا کے بلند ترین محاذ سیاچن سے فوجوں کی غیر مشروط واپسی کا اعلان کریں۔
اگرچہ ان نکات میں کشمیر کے مسئلہ پر پیش رفت نظر نہیں آرہی تھی کہ جسے جارحانہ انداز کہا جا سکے تاہم اس کے باوجود بھارت نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا تھااور پاکستان کے حلقوں کی جانب سے بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر واضح انداز میںترجمانی نہیں کی ۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان اور بھارت میں اشتعال پیدا ہو رہا ہے ۔بھارت گزشتہ تین ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کشمیریوں کی نسل کشی میں مصروف ہے ۔ کرفیو کے باعث وادی ایک جیل کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ سینکڑوں نوجوان اور بچے بھارتی جارحیت کا شکارہو کر نابینا ہو چکے ہیں۔
پاکستان نے اس پر عالم برادری کی توجہ دلانے کے لیے دنیا بھر میں سفارتخانوں کو متحرک کیا جس پر بھارت سیخ پا ہو گیا ۔ دوسری طرف اوڑی سیکٹر میں بھارتی فوج کے ہیڈ کوارٹر پر حملے نے صورتحال کو مزید سنگین کر دیااور بھارت کی جانب سے بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر الزام لگا کر دھمکیاں دینا شروع کر دیں جس پر پاکستان کو فوری ردعمل دینا پڑا ۔ کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کی بڑھتی ہوئی نقل و حمل اور سرجیکل سٹرائک کی دھمکیوں نے پاکستان کی عسکری قیادت کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا اور کورکمانڈر کے اجلاس کے بعد بھارت پر واضح کر دیا گیا کہ کسی بھی قسم کے سرجیکل سٹرائک کو جنگ سمجھا جائے گا جس کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانی فضائیہ نے ملک بھر میں موجود اپنے اڈوں سے پروازوں کی مشق کا آغاز بھی کر دیا۔
اس اشتعال انگیز ماحول میں جہاں بھارتی رہنمائوں اور میڈیا کے جنگی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ فضائوں میں طیاروں کی گن گرج بھی سنی جارہی ہے ۔ اقوام متحدہ کے فورم پر وزیر اعظم کی تقریر بہت ہی اہمیت کی حامل ہے ۔ ان حالات میں جس طرح وزیر اعظم نے مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں پر بھارتی جارحیت کو بے نقاب کیا وہ قابل تحسین ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی تقریر کی تیاری کے موقع پر عسکری قیادت ، سفارتکار اور تجزیہ نگاروں کے ساتھ بھی مسلسل مشاورت کی گئی ۔ یقینا یہ تقریر ایک اچھی ٹیم کی ہی بدولت ممکن ہوئی ہے اس میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب تہمینہ جنجوعہ کا کردار بھی قابل تحسین ہے جنہوں نے انسانی حقوق کمیشن میں بھارت کا ناطقہ بند کیے رکھا۔ ان کی ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آ چکی ہے جس میں انہوں نے بھارت کے مندوب کے جواب میں بہت ہی احسن مدلل اور کاٹ دار موقف میں کشمیر میں بھارتی جارحیت کو بے نقاب کیا۔تہمینہ جنجوعہ روزانہ کی بنیاد پر بھارت کی کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو بے نقاب کرتی رہیں۔
United Nations
اقوام متحدہ میں نواز شریف کی جانب سے جہاں مسئلہ کشمیر ایک نہایت ہی اچھے وکیل کی حیثیت سے پیش کیا گیا وہاں اعلیٰ سفارتکاری کا بھی مظاہرہ ہو ا۔ البتہ ایک اہم نکتہ جو اس تقریر میں بہت واضح انداز میں نہیں اٹھایا گیا وہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے بھارتی ہاتھ کی موجودگی تھا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کی واضح انداز میں بلوچستان اور گلگت کے حوالہ پر اپنی تقریر میں ذکر ، بلوچی زبان میں ریڈیو چینل کا آغاز اور بھارتی خفی ایجنسی را کے حاضر سروس کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد پاکستان کو اسی فورم پر بھارتی دہشت گردی کو بے نقاب کرنا ضروری تھا۔
بہر حال اس کے باوجود مسئلہ کشمیر کو بہترین انداز میں پیش کرنے پریہ کہنا بنتا ہے کہ ویل ڈن وزیر اعظم ۔۔۔لیکن یہ یاد بھی رکھنا چاہیے کہ سفارتکاری کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔ اپنی اس تقریر کے بعد دنیا بھر میں موجود بالعموم اور امریکہ و اقوام متحدہ میں موجود نمائندوں کا بالخصوص متحرک کرنا اور اسی مشق کو جاری رکھنا بہت ہی ضروری ہے۔ یقینا یہ ہماری شہہ رگ کا مسئلہ ہے۔آخر میں یہ کہنا بھی پڑے گا جو ہمارے ایک دوست نے فیس بک پر میاں نواز شریف کی تقریر کے بعد کہا کہ اب سشما سوراج اپنی تقریر میں جو بھی کہہ لیں، اس کی حیثیت کسی مطلقہ عورت کی جانب سے اپنے سابقہ شوہر پر الزام تراشی سے زیادہ کچھ نہیں ہو گی۔