تحریر : حفیظ خٹک میرے شوہر دفتر جانے کیلئے روزانہ کی تیار ہوئے اور خداخافط کہتے ہوئے گھر سے نکلے۔انہیں الوداع کرنے کے بعد گھر کے کاموں میں مصروف ہوگئی۔ شام ہوگئی اور وہ ابھی تک گھر نہیں آئے تھے،وقت گذرنے کے ساتھ میری انتظاری کیفیت میں بے چینی بڑھتی رہی۔ شام ہوگئی اس کے بعد اندھیرے کی چادر نے روشنی کی حکمرانی کو ختم کرتے ہوئے اپنے دور کا آغاز کیا لیکن وہ نہ تو روشنی میں واپس آئے اور نہ ہی رات کی حکمرانی میں واپس آئے۔ ان والدین اور بچوں سمیت میری بھی عجب کیفیات سی ہوگئیں تھیں، ایسا کھبی نہیں ہوا تھا کہ وہ دفتر جانے کیلئے گھر سے نکلے ہوں اور واپس نہ آئے ہوں ہاں جب دیر ہونے کا اندیشہ ہوا کرتا تھا تو وہ پہلے سے ہی اطلاع دے دیا کرتے تھے۔لیکن وہ جودفتر کیلئے گئے ہیں تو اس بات کو آج 12برس ہوگئے ہیں اور ابھی تک پلٹ کر نہیں آئے۔
اس دن سے لے کر آج تلک کا ہر دن جو ہم نے ان یاد میں ، ان کی تلاش میں گذارا ، وہ کیسے گذارے یہ ناقابل بیان ہیں۔اپنے جیون ساتھی کی تلاش میں ، میں نے گھر کی دہلیز سے قدم باہر نکالااور وہ قدم ابھی تک نکلے ہوئے ہیں۔ کیسی کیسی تکلیفیں میں نے ، میرے بچوں ، میرے والدین اور ساس و سسر سمیت سبھی نے سہیں ، نہیں بتا سکتی اور نہ ہی کوئی ان کو سمجھ سکتا ہے۔میں جب مسعود جنجوعہ کی تلاش میں نکلی تو اس روز کے بعدآنے والے روز انہ کے دنوں میں مجھے معلوم ہوتا رہا کہ جو دکھ درد میرا ہے وہ صرف میرا ہی نہیں ہے بلکہ اسی تکلیف سے درجنوں ، سینکڑوں نہیں ہزاروں دیگر میرے ہم وطن بھی بھگت رہے ہیں۔ کسی کا بھائی نہیں ہے تو کسی کا بیٹا نہیں ، کسی کا شوہر نہیں ہے تو کسی کا والد نہیں ہے۔
کہاں ہیں یہ سب ؟ کس ملک میں ہیں ؟ کس دنیا میں ہیں ؟ کس حال میں ہیں ؟ کیوں نظر نہیں آتے ؟ کیوں نہیں ملتے ؟ آخر کب تلک ہم ان کو سڑکوں سڑکوں ، گلی گلی ، شہر شہر ڈھونڈتے رہیں گے ،آخر کب تک؟ آسمان کی جانب دیکھتے اور اپنی آنکھوں میں رونما ہونے والی نمی کو چھپاتے ہوئے انہوں نے پانی کا ایک گھونٹ لیا اور اک طویل سانس لے کر کہا کہ میری محنت جار ی ہے او ریہ محنت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک میرا مسعود جنجوعہ میرے سامنے آنہیں جاتا۔۔۔میری محنت میں اب میں تنہا نہیں ہوں، میرے ساتھ چلنے والے میری آواز میں آواز ملاکر بلند و بانگ انداز میں اٹھانے والے ہزاروں میرے ساتھ ہیں ۔ میرے اس شہر میں ہی نہیں پورے ملک میں اور اس ملک سے بھی باہر میری ان لوگوں سے جن کے اپنے ان پاس نہیں ، وہ زندہ ہیں یا زندہ بھی نہیں، ایسوں کیلئے کام کرنے والی این جی اووز سے مسلسل رابطے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے جہاد کر رہی ہوں۔ میری راہ مشکلیں بھی آئیں اوررکاوٹیں و آزمائشیں بھی لیکن میری ہمت و حوصلے میں کسی بھی طرح کی کمی نہ لاسکیں ۔ ایسا بھی ہوا کہ یہ جو نااہل کئے گئے وزیر اعظم نوازشریف ہیں ان ہی کے دور حکومت میں مجھ پر میرے ساتھیوں پر لاپتہ افراد کے عزیز و اقارب پر اسلام آباد میں تشدد بھی کرکے تھانوں میں بند کیا گیا ۔ نواز شریف کو ، اس کے بھائی ، بیٹی ، غرض اس کے پورے خاندان کو اور اس سے بھی آگے بڑھ کر اس کی حکومت کو یہ پتہ ہی نہیں کہ اپنوں کی جدائی کیسے ہوتی ہے۔ اپنے جدا بھی ہوں اور جدا ہونے ہونے کیساتھ آپ کو اس بات کا علم نہ ہو کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں ۔ ہیں تو کہاں ہیں ؟ کس حال میں ہیں ؟ یہ درد ناقابل بیاں ہیں۔۔۔ یہ کہتے ہوئے امنہ مسعود جنجوعہ نے ایک بار پھر آسمان کی جانب دیکھا اور پھر زمین کی جانب دیکھتے ہوئے پانی کا گلاس اٹھایااور ایک گھونٹ پانی پیا۔اللہ رحیم ہے اور وہ ذات عظیم جانتا ہے کہ ہم نے کتنی محنت کی ہے۔
ہماری محنتوں کے سبب ہی اب تلک 850سے زائد لاپتہ افراد کا پتہ چل گیا اور وہ واپس اپنے گھروں کواپنوں کو لوٹ آئے اور ان دنوں وہ اپنی زندگیوں کو ان کیساتھ احسن انداز میں اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنے حصے کا کردار ادا کرتے ہوئے گذار رہے ہیں ۔ جب کوئی لاپتہ فرد سامنے آتا ہے تو اس وقت بھی جو جذبات و احساسات ہوتے ہیں ان کیلئے الفاظ نہیں ہیں۔ ہم محنتیں کر رہے ہیں اور ہمیں اس ملک کی سیاسی، مذہبی ، سماجی جماعتوں سے نہیں حکمرانوں سے نہیں صرف اللہ سے امید ہے کہ اور دعا کہ وہ ذات عظیم ہماری محنتوں کو قبول فرمائے اور لاپتہ افرادکو جلد بازیاب کرادے۔ امین
اس جملے کے ساتھ ہی وہ اٹھیں اور چلیں گئیں۔ راقم اپنے ہاتھ میں قلم و کاغذ تھامے اک لفظ بھی نہ لکھ پایا تھا نہ ہی سمجھ پایا تھا کہ لکھے تو کیا لکھے ، کہاں سے شروع کرے اور کہاں پر اس ملاقات میں ہونے والی باتوں کو ایک انٹرویو کی صورت دے کر اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ 30اگست کا دن عالمی سطح پر لاپتہ افراد کا عالمی دن ہوتا ہے اور اس دن لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کام کرنے والی این ج اووز تقریبات منعقد کرتی ہیں جن میں سیاسی ، سماجی اور مذہبی رہنماؤں سمیت حکومتی اکابرین کو بلوا کر اس حساس معاملے کی نوعیت واضح کی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ہونے والی جدوجہد کے متعلق آگاہ کیا جاتا ہے۔ ایسے تقاریب میں ان لوگوں کو بھی بلایا جاتا ہے کہ جن کے اپنے عزیز لاپتہ ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ ان کے تلاش میں در بدر بھٹک رہے ہوتے ہیں ۔ ان تقریبات کے علاوہ مظاہرے بھی ہوتے ہیں پریس کانفرنس بھی ہوتی ہیں اور بعض ذرائع ابلاغ اس موضوع پر اپنا بھی کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
راقم کو امنہ مسعود جنجوعہ کی ساری باتوں کے بعد صرف ایک بات کہنی ہے اور یہ کہنا ، عرض کرنا اس ملک کے قائم مقام وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی خدمت میں ہے اور بات یہ ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب ، آپ میرے ساتھ چلیں اور چل کر امنہ مسعود جنجوعہ سے ملیں ۔ ان کی باتیں سنیں۔ ان کی ہی نہیں ان ہزاروں کی باتیں سنیں جن کے اپنے آپ جیسے بیٹے لاپتہ ہوگئے، جن کے والدین لاپتہ ہوگئے اور جن کے بھائی لاپتہ ہوگئے۔ کہاں گئے ، کیسے گئے کون لے گیا اور کہاں لے گیا انہیں کچھ پتہ نہیں ۔ وزیر اعظم عباسی صاحب آپ کے وزیر اعظم نواز شریف نے تو اس قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اہل خانہ سے بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے جلد باعزت رہائی دلواکر واپس لے آئیں گے لیکن انہوں نے اپنا وہ وعدہ پورا نہیں کیا اور دیکھئے کہ وہ چلے نہیں بلکہ ناہل کر کے بھیج دیئے گئے ۔ کاش کہ انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا ہوتا اور وہ برسوں سے امریکہ جلد میں قید قوم کی بیٹی کو باعزت رہائی دلواکر واپس لا چکے ہوتے۔
بہر حال وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب ، آپ اس وقت اس قوم کے وزیر اعظم ہیں آپ کی یہ ذمہ داری کہ آپ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو واپس لائیں اور اس کے ساتھ امنہ مسعود جنجوعہ سے مل کر ان کے شوہر سمیت دیگر ہزاروں لاپتہ افراد کو بازیاب کرائیں ۔ اس قدم سے آپ کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں بھی آسانی رہے گی اور قوم آپ کے اس کردار کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، آپ میرے ساتھ چلیں اور آگے بڑھ کر لاپتہ افراد کے عزیز و اقارب کی آنکھوں میں آنے والی نمی کو دور کریں اور انہیں یقین دلائیں کہ آپ ہی لاپتہ افراد کو بازیاب کرائیں کے انہیں اپنوں سے ملوائیں گے۔