اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ کے جج جسٹس آصف سید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم کا بیان پڑھ کر دکھ ہوا۔ عدلیہ اپنی استعداد سے بڑھ کر کارکردگی دکھا رہی ہے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا ہے کہ مقدمات کے زیر التواء ہونے کی کوتاہی عدالتی نہیں حکومتی ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے پولیس تفتیش کو بہتر بنانے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ پولیس اور استغاثہ کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
اس حوالے سے مناسب قانون سازی بھی کی جائے گی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالتوں میں مقدمات کے زیر التوا رہنے کی وجہ تفتیش اور استغاثہ کی کوتاہی ہے۔ مقدمات کے زیر التواء ہونے کی کوتاہی عدالتی نہیں حکومتی ہے۔
حکمران اپنی کوتاہیوں کو دور کریں گے تو عدالتوں میں سرخرو ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ عدالتیں سزائیں نہیں دیتیں۔ عدالتیں انصاف کے لیے ہوتی ہیں سزاؤں کے لیے نہیں ، ناقص تفتیش پر لوگ بری ہو جاتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ وہ لوگ جو معصوم تھے اور سالوں جیل کاٹی ان کی تلافی کون کرے گا۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا جس تفتیشی افر نے اپنا کام مکمل نہ کیا ہو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ تفتیش اور استغاثہ کی یہ کارکردگی ہوگی تو عدالتوں میں بے شمار مقدمات زیرالتواء ہونگے۔ جسٹس سرمد جلال نے کہا کہ چیف سیکرٹریز بتائیں نامکمل تفتیش کر کے چالان پیش کرنیوالے تفتیشی افسران کے خلاف کیا کارروائی ہوئی۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام کی کیا ضرورت ہے۔
کیا فوجی عدالتوں کے جج اعلیٰ عدلیہ کے ججوں سے زیادہ ذہین و فطین ہیں۔ جیلوں میں قیدیوں کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ وزیر اعظم کی جانب سے عدلیہ کے بارے میں دیا گیا بیان پڑھ کر دکھ ہوا۔
سترہ لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں جن کو سننے کے لیے صرف 2400 جج ہیں۔ جج پورے کرنے کا کہا جائے تو فنڈز، جگہ اور دیگر مسائل آڑے آ جاتے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ انتظامیہ بھی معاملے پر ذمہ داری ادا کرے۔