تحریر : رانا ظفر اقبال ظفر پیچھلے دنوں رحیم یار خاں میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے خطاب کر تے ہوئے فرمایا کہ ہم اقتدار مفاد کے لئے نہیں آئے اقتدار آنی جانی چیز ہے یہ عوام کی اما نت ہے ہم اس میں خیانت نہیں کرنا چا ہتے انہوں نے آبدیدہ ہوتے ہوئے فرما یا کہ قر ض چکانے کے لیے اپنا گھر تک بیچ دیتے ہیں وہ لوگ وہ غریب جو اپنا علاج نہیں کروا سکتے وسائل نہیں رکھتے صحت پروگرام ان کے لئیے ہے حکومت اب پچاس نئے ہسپتال بنا رہی ہے جہاں غریب کو علاج کے لیئے اپنی جیب سے دھیلا تک نہیں خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔
غریبوں کے علاج کے لیے جتنا بھی لگا نا پڑا حکو مت لگا ئے گی مو ٹر وے جب بھی بنی مسلم لیگ ن نے بنائی اب لاہور سے کراچی تک بنا نے جا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ کا ر نا مے صرف ہما رے ہیں کچھ لوگ عوام کو گمراہ کرنے کی کو ششوں میں مصروف ہیں میاں نواز شریف کی تقریر سن کر میں بھی آبدیدہ ہو گیا میری آنکھوں کے سامنے نئے تعمیر ہو نے والے پچاس ہسپتال نہیں بلکہ جو چل رہے ہیں.
میاں نواز شریف اور وزیر اعلی ٰ میاں شہباز شریف کی طرف سے صحت عامہ کے لیے اٹھائے گئے اقدامات قابل تحسین ہیں ڈینگی مہم ہو یا خسرہ مہم ہسپتالوں کی ادویات کا معاملہ ہو یا ہسپتالوں کی تعمیرہو و عوام کو سہولیات پہنچانے کی بات آئے تو میاں شہباز شریف خزانے کا منہ کھولنے سے دریغ نہیں کرتے ہیں مگر یہ سب کچھ بیانوں تک ہو تا ہے یا حقیقت میں بھی اس کے کوئی رنگ نظر آتے ہیں اس حوالے سے مجھ سمیت لاکھو ں لوگ ذہنی پر یشانی کا شکار اس لیے ہیں کہ ہسپتالوں میںآنے والے مریضوںکو جو سہولت ملنی چاہیے وہ نظر نہیں آ رہیںجتنی سہولیات دی جا رہی ہیں اتنی کر پشن میں اضا فہ ہوتا جا رہا ہے اصل حالات اور جو عوام کو چاہیے وہ دکھا ئی نہیں دیتا بڑے بڑے ہسپتالوں میں جد ید مشینری، اے سی روم ، وافر ادویات، بہترین بلڈبنک، کی مد میں اربوں روپے خرچ کیے جا چکے ہیں مگر لاہور کے جنرل ہسپتال ،میو ہسپتال، جناح ہسپتال، کارڈیالوجی،ہسپتال سمیت کسی بھی سر کاری ہسپتال میں جائیں تو ایک ایک بیڈ پر تین تین مریض بے یارو مدد گار پڑے دکھائی دیتے ہیں جنکی فائل بننے تک کئی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں جو بچ جا تے ہیں۔
Health Department
ان کے ورثاء بڑ ی بڑی پر چیاں اٹھائے باہر سے ادویات خریدتے نظر آتے ہیں اگر ایک مریض صحت یاب ہو کر ہسپتال سے باہر نکلتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسکی ادویات پر لاکھ روپیہ خرچ ہوا جبکہ اسکے ٹیسٹوں پر دو لاکھ روپے خرچ آئے کیونکہ ہر ٹیسٹ میں ڈاکٹر جسے مسیحا کہا جاتا ہے اسکا پچاس فیصد حصہ ہوتا ہے اور ڈاکٹر کی پہلی ترجیح ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کروائے جائیں وہ مسیحا نہیں جانتا کہ اس مریض کے ورثا اگر اتنے دولت والے ہوتے تو وزیر اعظم پاکستان کی طرح پاکستان خصوصاً سرکاری ہسپتال سے علاج ہی کیو ں کرواتے وہ بھی لندن یا امریکہ کا رخ کرتے اور دولت کے بل بوتے صحت یاب ہو کر لوٹتے ہر ہسپتال میں لیبارٹری ہے جو جدید سہولتوں سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ کولیفائیڈ سٹاف کی ڈیوٹی میں ٹیسٹ کر تی ہے مگر ہمارے ڈاکٹر ز انکی رپورٹ پر اعتماد کرنے کی بجائے ففٹی پرسنٹ والی رپورٹ پر اعتماد کرتے ہیں جو ڈاکٹرز کا اعتماد ہو تا ہے مگر مریض کا کفن بھی بکوانے کی کوشش ہوتی ہے اس طرح ادویات اور مریض کی دیکھ بھال کا فعل ہے حالانکہ سرکاری ہسپتالوں میں ہونا تو یہ چاہیے جیسے ہی مریض ایمر جنسی میں داخل ہو کسی قسم کی ڈیمانڈ کے بغیر اسکا علاج ، معالجہ ، طبعی سہولیات، شروع کر دی جائیں تا کہ مریض کو محسوس ہو کہ وہ مسیحایوں کے پاس پہنچ چکا ہے مگر ہمارے ہاں الٹا ہوتا ہے۔
مریض تڑپ رہا ہوتا ہے اور عملہ فائل پرچی کا پوچھ رہا ہوتا ہے جب تک فائل یا پرچی آتی ہے تب تک اکثر یت مریضوں کی اللہ میاں کو پیارے ہو جاتے ہیں ہمارے ملک میں شاہد پالیساں مرتب کرنے والے ایسے افراد کو چنا جاتا ہے جو محکموں کو تو بخوبی جانتے ہیں مگر عوامی خصو صاً چھوٹے شہروں اور دیہاتی عوام کی تکالیف ،مسائل سے بلکل نا واقف ہوتے ہیں جسکی وجہ سے قصبات لیول کے رورل ہیلتھ سنٹر اور تحصیل لیول ہسپتالوں میں آج بھی سہولیات کا فقدان ہی فقدان ہیں گو ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر یہ چاہتا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ویژن کے مطابق ہسپتالوں میں عوام کو ٹوٹل ادویات دی جائیں ، ڈاکٹرز ڈیوٹی پر ہوں مگر پالیسی ساز شہزادوں نے اس طرف کبھی توجہ نہیں دی کہ عمارتیں خوبصورت سے خوبصورت بنا دینے ،اے سی لگوادینے سے عوامی مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
آج بھی قصبات لیول کے ہسپتال میں چلے جائیں وہاں تین سے چار ڈاکٹرز ہو ںگے جبکہ آٹھ سے دس میڈیکل آفیسرز کی آسامیاں خالی پڑی دکھائی دیں گی جو صبح سے دو بجے تک تو ڈیوٹی سر انجام دے لیتے ہیں مگر دو بجے سے صبح آٹھ بجے تک ڈاکٹرز دستیاب نہیں ہوتا اور اگر زبر دستی ڈاکٹرکی ڈیوٹی بھی لگا دی جائے تو آن کال ہوتا ہے جسکو کال کر کے بلانا پڑتا ہے اور ڈاکٹرز کے تشریف فرما ہونے تک مریض اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے یا پھر آسان نسخہ ایسے ہسپتالوں میں تیار کیا گیا ہے کہ معمولی /سیر یس نو عیت کا مریض آئے تو فوری ریفر کر دیا جائے جس کو لیجانے کے لیے اکثر سرکاری ایمبو لینس دستیاب نہیں ہوتی دو بجے کے بعد کوئی بچہ بیمار ہو جائے تو ایسے ہسپتالوں میں چائلڈ سپشلسٹ نہیں ملتا حالانکہ ہو نا تو چاہیے کہ چائلڈ سپشلسٹ ہر وقت دستیاب ہوایسے ہی ہسپتالوں میں کرپشن کا راج ہوتا ہے کلرک بادشاہوں نے اپنی ہی کمپنی رجسٹرڈ کروائی ہوتی جس کے ذریعے کروڑوں کی ادویات پر چیز کی جاتیں ہیں تو ففٹی پرسنٹ ڈکار لیا جاتا ہے۔
اسٹور انچارج سے لیکر ڈیزل پٹرول کی پرچی جاری کرنے والے ایک ہی بجٹ میں لاکھوں روپے کما لیتے ہیں جنکا آڈٹ کرنے والے بھی کمال ایمانداری سے اپنا حصہ لیکر رفو چکر ہو جاتے ہیں حالانکہ صاف دکھائی دے رہا ہوتا ہے کہ سانپ ڈسنے سے بچائو کی ویکسین جو ستر ہ سو روپے سے دوہزار روپے میں آتی ہے وہ سردیوں میں ہی لاکھوں روپے کی جاری کر دی جاتی ہیں جبکہ سانپ کا موسم ہی نہیں ہوتا اس طرح کے کئی اور کمالات بھی محکمہ صحت کی آڈٹ ٹیم کی کمزوری نظر یں نہیں دیکھ پائیں اور حکومتی خزانے کو بے دردی سے لوٹا جاتا ہے دیہاتی ہسپتالوں جنہیں (BHU)کہا جاتا ہے وہاں عوام کی زندگیوں سے کھیلنے کے لیے ڈسپنسر اور درجہ چہارم کے ملازمین آستین چڑھاتے علاج معالجہ کر تے دکھائی دیتے ہیں لاکھوں روپے کے فنڈ سے تعمیر ہونے والے ہسپتالوں کی رہائش گاہوں میں زمینداروں کے رعایا ملازمین آباد ہوتے ہیں یا پھر اناج کے سٹور بنا دیئے جا تے ہیں ڈاکٹر کی رہائش گاہوں میں مال مویشی باندھے جاتے ہیں جبکہ انکو دیا جانے والا سالانہ کروڑو ں کا فنڈ عوام پر خرچ ہونے کی بجائے ضلعی افسران اور کلرکوں کی جیبوں میں چلا جا تا ہے دیہات کے ہسپتالوں میں آپریشن کے نام پر عوامی تذلیل ہوتی ہے کیونکہ ڈاکٹرز پرائیویٹ کلینک و ہسپتال بنا رکھا ہے۔
پرچی ہسپتال میں بنتی ہے جبکہ آپریشن اور علاج پر ائیویٹ ہوتا ہے مسیحائوں کی لوٹ مار کا عالم تو یہ ہے کہ اب ہسپتال سرکاری کم پرائیویٹ زیادہ لگتے ہیں اگر خدا نخواستہ کوئی لیڈی ڈاکٹر تعینات ہو بھی جائے تو بچاری کو خواتین کی ڈلیوری آپریشن کرنے میں قدم قدم پر پریشانی کا سامنا ہوتا ہے جس میں انتسٹھریا سپشلسٹ (بے ہوش کرنے والا ڈاکٹر) آکسیجن ، انکو بیٹر سمیت کوئی سہولت دستیاب نہیں ہوتی ہیں جو ڑ توڑ لگا کر ڈلیوری توکر دی جاتی ہے مگر بچے کی معمولی طبیعت خراب ہو تو پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑ تا ہے اسکے علاوہ بجلی نہ ہونے کی صورت میں جر نیٹر کا نہ چلنا سمیت غریب عوام کو کئی پریشانیوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
Hospital
ایسے حالات میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سمیت محکمہ صحت کی کاوشیں ماہانہ اربوں روپے کی تنخواہیں فضول اور بے کار جا رہی ہیں جن سے صرف بڑے ہسپتالوں میں جانے والے لوگ تو فیض یاب ہو رہے ہیں مگر غریب عوام اور دیہاتی حلقوں کے ہسپتالوں سے عوامی مسائل نہ حل ہو پائے ہیں اور جب تک حکومتیں اسے سی کمروں میں بیٹھ کر کاغذی پالیسیاں مرتب کر تی رہیں گی یہ مسائل بڑھتے ہی چلے جائیں گے اور صحت عامہ پر لگا ئے کھربو ںروپے یو نہی بے کار جاتے رہیں گے جنکا فائدہ محکمہ صحت کے ملازمین کو تو ہو سکتا ہے مگر عوام کو نہیں اس لیے حکومت کو سب سے پہلے تحصیل لیو ل اور قصبات کے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی کمی کو پورا کر نا ہو گا اور ساتھ ہی پرائیویٹ ہسپتالوں میں دی جانے والی سہولیات کو سامنے رکھ کر جراحی آلات اور مشینری کا سد باب کر نا ہو گا نیز کیا سر کاری ملا زمت کر نے والے ڈاکٹرز کے پرائیویٹ کلینک بند کروانا کیا حکو مت کی ذمہ داری نہیں ہے ؟؟کیا دیہا تی علا قوں کے ہسپتا لوں میں ڈاکٹرز کی کمی کو پو را کر کے علاج معا لجہ کی سہو لیا ت فرا ہم کرنا حکو مت کی ذمہ داری نہیں ؟کیا دیہا تی علا قوں میں لیڈی ڈاکٹرز کی تعیناتی یقینی بنا نا اور خوا تین کے مسا ئل حل کر نا حکو متی ذمہ داری نہیں ؟ کیا بڑے شہروں میں مو جود ہسپتا لوں میں صحت عا مہ کی سہولیات فراہم کر نا حکو متی ذمہ داری نہیں؟کیا ہسپتا لوں کی لیبز کو معیا ری اور قا بل اعتماد بنا نا حکو متی ذمہ داری نہیں ؟ کیا سر کا ری ہسپتا لوں میں فا ئل یا پر چی سے زیادہ مر یض پر تو جہ دلا نا حکو متی ذمہ داری نہیں۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف کا آبدیدہ اس لیے بھی بنتا ہے کہ انسا نوں کی صحت ،علاج سے زیا دہ اہم مو ٹر وے ،اورینج ٹرین میٹرو کے منصو بہ جا ت ہیں جن کی تکمیل دنوں میں مکمل کی گئی مگر ان منصو بوں پر عمل کبھی نہ کیا گیا جو انسا نوں کی زندگیاں بچا نے کے لیے ضروری تھا آج پا کستا ن میں زراعت کا برا حال ہے جس کی بد ولت ہر طرف بھو ک ، تنگ دستی ،نا چ رہی ہے لو گ ایک دوسرے کو کا ٹنے ،ما رنے ، مرنے ،کے در پے ہیں کیو نکہ جب تک کسان کے پاس کچھ نہ ہو گا کاروبار زندگی کا پہیہ کیسے چل سکے گا جس پر پوری قوم آبدیدہ ہے ؟بڑے بڑے دعوے کرنے والے حکمرانوں کے لیے یہ کا فی نہیں ہے کہ پا کستا ن میں علاج سستاہے نا دو وقت کی روٹی ،حتکہ کو ئی مر نا بھی چا ہے تو قبر بھی مہنگی پڑ جا تی ہے تو پھر کو ن سی حکو منتیں ،کو ن سے لیڈر ،کون سے دعوے ،کون سے نعرے ؟ہا ں اب قر ضوں کے بو جھ تلے دبی قوم کو حکمرانوں کے اور افسران کے بیانات سننا ہونگے جو صرف اخبارات ،ٹی وی اور سوشل میڈیاتک محدودد رہیں گے اور عوام یونہی تڑپ تڑپ کر مرتی رہے گی اور سرکاری ملازم جیب گرم کرتے رہیں گے۔