اسلام آباد (جیوڈیسک) جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پاناما کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے ، ان کی زندگی کھلی کتاب کی طرح ہے ، لیکن اس کھلی کتاب کے بعض صفحات غائب ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیر اعظم نے پورا سچ نہیں بتایا تو کیا غلط بیانی نہیں ہوگی۔
سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے ، انہوں نے کہا کہ ان کی زندگی کھلی کتاب کی طرح ہے ، اس کھلی کتاب کے بعض صفحات غائب ہیں ، جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہا کہ نواز شریف بھی خاندانی کاروبار کا حصہ ہیں ، مخدوم علی خان نے کہا کہ نواز شریف دبئی فیکٹری میں حصہ دار نہیں تھے ، التوفیق کیس میں نواز شریف فریق نہیں تھے۔
برطانوی عدالت کا فیصلہ بھی نواز شریف کے خلاف نہیں تھا ، انجانے میں کوئی بات رہ جانا اور جان بوجھ کر چھپانے میں فرق ہے ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ پہلی تقریر میں کوئی بات رہ گئی تھی تو دوسری میں شامل کر سکتے تھے ، تحریری بات میں کوتاہی ہو تو چھپانے کا مطلب لیا جا سکتا ہے ، جسٹس اعجاز افضل بات چھپانے کا تعین شواہد ریکارڈ کرنے سے ہو سکتا ہے ، دو موقف سامنے آئے ، ایک سچ ہوگا دوسرا جھوٹ۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیر اعظم کی پہلی تقریرعمومی جبکہ دوسری میں کچھ تفصیل بتائی گئی۔ بعض اوقات دونوں لوگ اپنی معلومات کی بنیاد پر سچ بول رہے ہوتے ہیں ، درخواست گزار کہتا ہے کہ میرے موکل نے جھوٹ بولا ، میں تردید کرتا ہوں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیر اعظم نے اپنی تقریروں میں فلیٹس اور ریکارڈ موجودگی کا ذکر کیا ، آپ پر ذمہ داری ہے جو بیان دیا مطمئن کریں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ شریف فیملی کے بیانات میں تضادات ہیں ، ہم نے سچ کا پتہ چلانا ہے ، سچ بیانات سے نہیں دستاویزات سے معلوم ہوگا ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اپنا موقف پیش کرنے کا پورا موقع دیں گے ، بتائیں کتنا وقت چاہیے ، بعض مقدمات میں دستاویزی شواہد نہیں ہوتے ، ایسے مقدمات میں عدالت کو حالات و واقعات پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ نا اہلی سے متعلق قوانین کے مطابق شک کا فائدہ کامیاب امیدوار کو جاتا ہے ، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اس کیس میں کوئی شواہد ریکارڈ نہیں ہو رہے ، شواہد ہیں کہاں ، جسٹس آصف سعید نے کہا کہ حالات و واقعات کے معاملے کو بعض اصولوں پر پرکھا جاتا ہے ، ہمارے سامنے پاناما کے علاوہ کوئی دوسرا مقدمہ نہیں ، جسٹس گلزار احمد عدالت آپ کے موقف پر انحصار کر رہی ہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ الزام لگانے والوں کے اپنے موقف میں تضاد ہے ، الزام لگانے والوں نے اپنا کیس خود خراب کر لیا ہے اور یہی میرا کیس ہے ، عدالت کے پاس اتنی سمجھ بوجھ ہے کہ معاملے کو سمجھ سکے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ شواہد ریکارڈ کیے بغیر دستاویز محض کاغذ کا ٹکڑا ہوتی ہے ، کسی دستاویز پر نا اہلی سے قبل شواہد ریکارڈ کرنا ہوتے ہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیر اعظم کو ہٹانے کا طریقہ تحریک عدم اعتماد ہے ، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ثابت ہو وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے ۔ اگر کوئی بات رہ گئی تو اسے غلط بیانی نہیں کہا جا سکتا ، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر وزیر اعظم نے پورا سچ نہیں بتایا تو کیا غلط بیانی نہیں ہوگی ، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ کی شقوں کا اس مقدمے سے کیا تعلق ہے ، یہ شقیں انتخابی عذرداری میں متعلقہ ہو سکتی ہیں۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ الیکشن کے بعد نا اہلی کیلئے کووارنٹو کی درخواست دائر ہوسکتی ہے ، دہری شہریت کے مقدمات میں عدالت عظمیٰ میں بھی کووارنٹو کی درخواستیں دائر ہوئیں ، دوہری شہریت والوں نے عدالت میں اپنی دوسری شہریت تسلیم کی ، ہمارے سامنے یہ کیس ہے کہ کچھ بیانات دیئے گئے ، جن پر نااہلی مانگی جا رہی ہے ، کیا سپیکر قومی اسمبلی کے سامنے نا اہلی کے ریفرنس دائر ہوئے ۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ اس معاملے پر داد رسی کا فورم سپیکر قومی اسمبلی ہے ، سپیکر نے 2 اگست 2016 کو نا اہلی کے ریفرنس خارج کر دیئے تھے۔
عدالتی استفسار پر مخدوم علی خان نے کہا کہ سپیکر کے بعد دوسرا فورم ہائیکورٹ ہے ۔ الیکشن کمیشن کے پاس براہ راست بھی ریفرنس دائر ہوئے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عدالت کے سامنے موجود درخواستیں دوسرے فورمز پر بھی موجود ہیں ، دوسرے فورم پر معاملہ زیر التواء ہو تو کیا سپریم کورٹ میں کارروائی ہو سکتی ہے ۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ شیخ رشید نے سپیکر قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن میں درخواستیں دیں ، آرٹیکل 62 پر نا اہلی کیلئے عدالتی فیصلہ ہونا ضروری ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ درخواست گزار اگر کہے کہ پہلے ڈیکلریشن دیں پھر نا اہل کریں پھر کیا ہوگا ، اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا ، یوسف رضا گیلانی کے مقدمے میں پہلے این آر او کیس کا فیصلہ ہوا ، اس کے بعد عدالت نے عملدرآمد کا حکم دیا ، فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کا نوٹس دیا ، یوسف رضا گیلانی کو خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کی سزا دی ، یوسف رضا گیلانی نے سزا پر اپیل دائر نہیں کی ، عدالتی فیصلے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کے پاس ریفرنس گیا ، سپیکر نے ریفرنس خارج کیا تو عدالت عظمیٰ نے ایک درخواست پر یوسف رضا گیلانی کو نا اہل کیا۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ قوم سچ جاننا چاہتی ہے ، دونوں فریق چاہتے ہیں کہ سچ سامنے نہ آئے ، ایک جانب جائیں تو دیوار کھڑی کر دیتے ہیں ، آپ کی طرف آئیں تو آپ دیوار کھڑی کر دیتے ہیں ۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کا معاملہ 184 تین کے دائرہ کار میں نہیں آتا ، عوامی نمائندگی ایکٹ میں جھوٹا الزام لگانے کی سزا بھی پانچ سے 7 سال ہے ، عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔