وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ ایران کا اہم دورہ کیا۔ دورے کے حوالے سے دونوں ممالک کے سربراہان کی ملاقاتوں کی تفصیلات سامنے آچکی ہیں۔ رسمی و غیر رسمی بیانات کے علاوہ باہمی تعلقات کے فروغ کے حوالے سے پڑوسی ممالک کا رابطہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جس سے کئی نان ایشوز کی بڑھنے سے قبل روک تھام میں مدد ملتی ہے، تاہم کئی ایسے تصفیہ طلب امور ہیں، جن پر دونوں ممالک کے درمیان باہمی مفاہمت و اعتماد سازی کی ضرورت ہے۔ دورۂ ایران سے قبل کوسٹل ہائی وے پر دہشت گردی کا واقعہ اُسی طرح معنی خیز ہے جیسے 2016 میں ایرانی صدر حَسن روحانی کے دورۂ پاکستان کے وقت کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ظاہر کی گئی تھی۔ پاکستان نے باقاعدہ اورماڑہ میں دہشت گردی کے واقعے پر ایرانی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج کیا اور مراسلہ بھی دیا۔ پاکستان نے دہشت گرد گروپ کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر ایران سے شدید احتجاج کرتے ہوئے ملوث عناصر کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ احتجاجی مراسلے میں پاکستان کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے گروپ کے خلاف کارروائی کے لیے پہلے بھی ایران سے کئی بار مطالبہ کیا، پاکستان اس سرگرمی سے متعلق ایران سے پہلے ہی انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کرچکا تھا، بدقسمتی سے اس ضمن میں ایران کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے واقعے کی رسمی مذمت کی ہے، تاہم پاکستان کی جانب سے ایران کی سرزمین میں موجود دہشت گردوں کی موجودگی پر احتجاجی مراسلہ اور شدید احتجاج کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات مدوجزر کا شکار رہے ہیں۔ خصوصاً سی پیک منصوبے کے بعد ایرانی بندرگاہ چاہ بہار اور بھارت کے ساتھ ایران کے بڑھتے تعلقات سمیت کالعدم تنظیموں کی پاکستان میں مداخلت سمیت کئی ایسے معاملات ہیں جن پر پاکستان نے ہمیشہ اپنے تحفظات سے ایران کو آگاہ رکھا۔ خاص طور پر سعودی عرب کے ساتھ تعلقات خمینی انقلاب کے بعد نئے ایران کی ترجیحات پاکستان کے لیے بڑا امتحان ثابت ہوئی ہیں۔ ایران کا عراق، شام، یمن، لیبیا وغیرہ میں اعلانیہ و غیر اعلانیہ خانہ جنگوں کا سبب بننا بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات کے باوجود ایران سے متوازن رویہ رکھ کر ایک اچھے پڑوسی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
اس ضمن میں ایران کی حکومت سے بھی کی توقع کی جاتی رہی ہے کہ وہ پاکستان کے مثبت اقدامات و دیرینہ تعلقات کے مینڈیٹ کو تسلیم کرے۔ ریاست نے وزیراعظم کو ایسے وقت ایران کے دورے پر بھیجا ہے جب کہ امریکا اور ایران کے تعلقات بدترین و خطرناک سطح پر آچکے ہیں۔ امریکا نے ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے تو دوسری جانب ایران نے بھی امریکا کو جواب دیا۔ ان کشیدہ حالات میں کہ جب ایران اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات کی نوعیت بھی ماضی کے مقابلے میں مکمل بدل چکی ہے۔ وزیراعظم کا ایران جانا ریاست کا ایک بہت بڑا فیصلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کی نوعیت کو پڑوسی ممالک کی حیثیت سے مثالی رہنے کی ضرورت ہے۔ لیکن بعض عناصر نے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے پاکستان میں پراکسی وار کو بڑھاوا دیا ہے۔ پاکستان اپنے تمام پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات چاہتا ہے، لیکن ان ممالک کے بعض عناصر کا جھکائو بدقسمتی سے بھارت کی پاکستان دشمن پالیسی کے ساتھ جڑ چکاہے۔ جس کے سبب پاکستان کے تمام تر تعاون کے باوجود افغانستان اور ایران کی جانب سے پاکستان پر الزامات اور غیر سفارتی لب و لہجہ ساری امن کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔
پاکستان اس برس دسمبر تک افغانستان کے ساتھ اپنی ملکی سرحدوں پر باڑ لگانے کا منصوبہ ان شاء اللہ مکمل کرلے گا، جس کے بعد ریاست نے پاکستان اور ایران کے درمیان سرحدی علاقے کو بھی محفوظ بنانے کے لیے بارڈر پر کام شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق افغانستان اور پاکستان کے درمیان باڑ لگانے کا کام رواں سال دسمبر تک مکمل ہوجائے گا جب کہ حکومت نے پاکستان اور ایران کے درمیان 950 کلومیٹر سرحد پر باڑ لگانے کے فیصلے پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔ ایران اس منصوبے میں پاکستان کے ساتھ کتنا تعاون کرے گا، اس کا اندازہ وقت آنے پر ہوگا۔ تاہم پاکستان اور ایران کے درمیان 950کلومیٹر سرحد پر محفوظ باڑ لگانے کے منصوبے پر ایران نے تاحال کسی مالی تعاون کا اعلان نہیں کیا۔ بلوچستان میں امن و امان کو قائم رکھنا ریاست کی اولین ذمے داری ہے، بھارت اپنی سازشوں کے ذریعے وہاں بے امنی کو پروان چڑھا رہا ہے، جس کے مقاصد واضح ہیں کہ دنیا کے عظیم معاشی منصوبے ون بیلٹ ون روڈ کو کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔ بھارت نے ایران اور پاکستان کے درمیان بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی، خصوصاً کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور پاکستان کو عدم استحکام کرنے کی سازشوں کے طشت ازبام ہونے کے بعد پاکستان کا تحمل و بردباری کا مظاہرہ کرنا ثابت کرتا ہے کہ پاکستان اپنے پڑوسی ممالک سے تمام تر تحفظات کے باوجود بہتر تعلقات قائم رکھنے پر یقین رکھتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ریاست پاکستان نے جب سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں سرزمین حجاز کے تحفظ کے لیے صف اوّل کا دستہ بننے کا عزم ظاہر کیا تو بعض سیاست دانوں کی جانب سے پاک۔ سعودی تعلقات کو متنازع بنانے کی کوشش بھی کی گئی، لیکن ایران کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی، مارٹر گولے پاکستانی حدود میں داغنے اور خاص طور پر گزشتہ دنوں کوسٹل ہائی وے میں ملوث دہشت گردوں کے متعدد بار ایران کی سرزمین استعمال کرنے کے حوالے سے پاکستانی احتجاج کے باوجود ایران نے چپ سادھی ہوئی ہے۔ ایران کی جانب سے پاکستان کے خلاف بیانات و دہشت گردوں کی ایران میں موجودگی پر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں کوئی قرارداد پیش نہیں کی گئی۔
تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر اچھے تعلقات قائم رکھے جانے چاہئیں۔ ماضی کے غلط اقدامات کی دوبارہ توثیق نہ ہو اور پاکستان کی سرزمین کا دفاع کرنا پہلی ترجیح ہے، چاہے اس کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینی پڑے۔ وزیراعظم کے دورے سے کئی غلط فہمیوں کا ازالہ ہونے میں مدد ملی ہوگی۔ ایران کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان نے عالمی قوتوں کے مطالبے کے باوجود کسی قسم کی سوویت یونین طرز کی مداخلت سے خود کو دُور رکھا ہوا ہے۔ ایران کو پاکستان کے مفادات کا خیال رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے، اس نے ایران کی وجہ سے کئی عالمی قوتوں کو ناراض بھی کیا ہے، ان حالات میں اگر کوسٹل ہائی وے جیسے واقعات اور سی پیک دشمن عناصر کے لیے ایرانی سرزمین استعمال ہوتی رہی تو یقینی طور پر دونوں ممالک کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ایران کو بلوچستان میں دہشت گردوں کی مداخلت کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔