وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ دورہ روس کئی حوالوں سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیا گیاجب ایک طرف پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سرد مہری کا شکارہیںاور اسی طرح عالمی سطح پراگر حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات بھی واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ شروع ہوچکی ہے تو اس بدلتی ہوئی عالمی صورت حال میں چین اور روس پاکستان کو ساتھ ملا کر باہمی طاقت کے طور پر خطے کی سیاست کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ دوسری جانب پوری دنیا یوکرائن اور روس کے درمیان ہونے والی موجودہ جنگ پر گہری نظریں جمائے ہوئے ہے۔
عالمی تجزیہ کاروں کی نظر میں ایبسولیوٹی ناٹ کے نعرے سے پاکستان خودمختاری کی جانب گامزن ہے۔ عالمی تناظر سے ہٹ کر بھی اگر دیکھا جائے تو اس دورے کی اپنی ایک سفارتی، معاشی اور دفاعی اہمیت ہے ۔ ماضی میں بھی یعنی افغان، روس وار سے قبل روس اور پاکستان اچھے دوست رہے ہیں ۔ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں روسی حکومت کے تعاون کے تحت پاکستان اسٹیل ملز کراچی تعمیر کی گئی تھی اور بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے تھرمل پاور پلانٹ بھی لگائے گئے ۔
وزیر اعظم عمران خان کے دورہ روس پر ان کے سیاسی مخالفین کی جانب سے سب سے زیادہ اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ ایسے وقت میں جب روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ چھڑنے والی تھی تو وزیراعظم پاکستان کا روس جانا درست نہیں تھا۔ پاکستان اور یوکرائن کے درمیان بھی اچھے تعلقات ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس دورے سے ان تعلقات پہ ضرب پڑے گی۔حالانکہ حقائق قطعی طور پر اس سے مختلف ہیں کیونکہ یہ سمجھنا کہ اس دورے سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات بالکل ختم ہو جائیں گے یا پاکستان اور یوکرائن تعلقات سرے سے ختم ہو جائیں گے یہ ایک غیر سنجیدہ سوچ کی عکاسی ہے اس لیے کہ ملکوں کے درمیان تعلقات کی بنیادیں اس قدرکمزور نہیں ہوا کرتیں۔ایک باقاعدہ شیڈول کے تحت طے ہونے والے ملکی سربراہ کے دورے کو اچانک کینسل کرنا زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا جس سے ایک تو وزیر اعظم پاکستان کی ساکھ متاثر ہوتی اور دوسرا دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا رشتہ بھی کمزور ہونے کا خدشہ سامنے آتا۔جہاں تک روس اور یو کرائن کے درمیان پیدا شدہ صورتحال کی بات ہے تو پاکستان نے ایک ذمہ دار ملک ہونے کے ناطے اس حوالے سے تمام سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھا ہوا ہے۔
دورہ روس کے دوران وزیراعظم پاکستان کا روسی میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں فوجی حل کی مخالفت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کسی قسم کی جارحیت کو سپورٹ نہیں کرتے اور نہ ہی پاکستان کسی جارحیت کا حصہ بننے جا رہا ہے اسی طرح یوکرائن کی جانب سے بھی وزیراعظم پاکستان کو یہ پیغام بھیجا گیا کہ وہ اس کشیدگی کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں جویقینا پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اور عمران خان کی قائدانہ صلاحیتوں کا عالمی سطح پہ کھلا اعتراف ہے۔
سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان اس دورے سے قائم ہونے والے نئے تعلقات سے ایک جانب مغرب کو تگڑا پیغام جائے گا کیونکہ وہ کبھی بھی پاکستان کو مغرب سے کٹ کر چین و روس کی جانب جاتا ہوا نہیں دیکھ سکتے لہٰذا اب امریکہ و یورپ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ برابری کے تعلقات استوار کرنے کی راہ بھی ہموار ہو گی۔ اسی طرح یہ بات بھی پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس دورے کے دوران افغانستان سے متعلقہ امور بھی زیر بحث آئے ہوں گے اور اس حوالے سے دونوں سربراہان نے مستقبل کی سٹریٹجی بھی طے کی ہوگی۔ دونوں ملک ٹرائیکا، کواڈ گروپ، ماسکو فارمیٹ اور افغانستان پر استنبول پراسیس کے حامی ہیں اوران امور پر دونوں ممالک میںتقریباََ یکساں سوچ پائی جاتی ہے۔پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن منصوبہ اس دورے کا سب سے فائدہ مند پہلو ثابت ہو سکتا ہے۔
کراچی سے قصور تک 1100 کلومیٹر طویل پائپ لائن کا پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن منصوبہ میں جو پہلے نارتھ ساؤتھ پائپ لائن کے نام سے جانا جاتا تھا، سالانہ 12.4 ارب کیوبک میٹر گیس منتقل کرنے کی صلاحیت ہے۔ مذکورہ منصوبے میں پاکستان کا حصہ 74 فیصد ہو گا اور منصوبے پر کل 2.3 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔اس پراجیکٹ کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ روس پہ امریکی پابندیاں لگنے کے باوجود بھی یہ منصوبہ متاثر نہیں ہو گا ۔ امید کی جانی چاہیے کہ عمران خان کا حالیہ دورہ روس جہاں پورے خطے کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو گاوہاں انشاء اللہ پاکستان کی خودمختاری اور معاشی بہتری کے لیے بھی یہ دورہ معاون ثابت ہو گا۔