وزیرِاعظم کا دورہ امریکہ، توقعات، خواہشات

Nawaz Sharif, Obama

Nawaz Sharif, Obama

ناخواندہ ہسپانوی مہم جو فرانسسکو پیزارونے پیرو کی ”انکا” سلطنت فتح کرنے کا ارادہ کیا۔”انکا ”یعنی حکمران تمام اختیارات کا مالک ہوتا تھا اور ہندوستانی اسے ”اوتار” یا نیم دیوتائی وجود تسلیم کرتے تھے۔ 1528ء میں شہنشاہ چارلس پنجم نے پیزارو کو ”پیرو” فتح کرنے کا اختیار تو دے دیا لیکن اُس کو اِس مہم کے لیے صرف مالی امداد مہیا کی۔ نڈر اور الوالعزم پیزارو ستمبر 1532ء میں محض 177 سپاہیوں اور 62 گھوڑوں کے ساتھ اُس سلطنت کو فتح کرنے نکلا جس کے پاس کئی ہزار مسلح جنگجو ، ساٹھ لاکھ سے زیادہ آبادی اوربے تحاشہ سونا اور چاندی کی مالک تھی۔

پیزارو نے اپنی ہمت، جرأت اور چالاکی سے اُس سلطنت کو فتح کیا جس کی آبادی جنوبی امریکہ کی تمام ریاستوں کی مشترکہ آبادی سے بھی زیادہ تھی۔ پیزارو نے حکمران” اتاہولیا” کو گرفتار کر کے قتل کر دیا اور تیس ملین ڈالر سے بھی زیادہ سونا چاندی لوٹ لیا۔ ہمت و جرأت کے علاوہ کٹر مذہبی ہونا بھی پیزارو کی اِس عظیم الشان کامیابی کی ایک وجہ تھی۔ مرتے ہوئے اُس نے اپنے خون سے زمین پر صلیب کا نشان بنایا اور آخری لفظ جو اُس نے ادا کیا وہ ”یسوع” تھا۔

عالمِ اسلام کی تاریخ تو ایسے محیر العقول واقعات سے بھری پڑی ہے۔ غزوۂ بدر سے شروع کر لیجئے، تاریخ کے صفحات پرجا بجا ایسے ہی واقعات نظر آئیں گے ۔میں نے حضرت عمر کے دَور کی فتوحات کا ذکر کیا ہے نہ محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد کے کارنامے گنوائے ہیں لیکن تاریخ بہرحال یہی بتلاتی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے جذبۂ ایمانی کے زور پر ہمیشہ اپنے سے کئی گنا بڑی طاقتوں کو زیر کیا۔ مشاہیرِ عالمِ اسلام کا ذکر کرنے کی بجائے میں نے فرانسسکو پیزارو کا ذکر محض اِس لیے کیا ہے کہ ہمارے بہت سے سیکولر دانشور اسلام کا نام سُنتے ہی بھڑک اُٹھتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ہر اُس شخص کو ہمالیہ سے بھی اونچا قرار دے دیا جاتا ہے جسے مغرب اپنا لے۔ ملالہ یوسف زئی جسے مغرب نے بیشمار اعزازات سے نوازا ، اسے ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے آسمان کی رفعتوں تک پہنچا دیا لیکن علیم و خبیر ربّ ِ لازوال نے اُسے اُسی کے ہاتھوں رُسوا کر دیا ۔ضیاء الدین یوسف زئی اور کرسٹینا لیمب کی کاوشوں سے منظرِ عام پر آنے والی کتاب ”میں ملالہ ہوں” نے ملالہ کی آڑ میں کھیلے جانے والے عالمی فتنہ گروں کے کھیل کو عیاں کر دیا۔

ملعون سلمان رُشدی کی کتاب” سیٹانک ورسز” کے منظرِ عام پر آتے ہی پورے عالمِ اسلام میں آگ لگ گئی لیکن ملالہ کو یہ آزادیٔ اظہارِ رائے نظر آتی ہے اور عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مُلّا اور اُن کے پیروکاروں کا رجعت پسند ٹولہ۔ طالبان کہلانے والے دہشت گردوں کی غیر اسلامی اور غیر شرعی کارروائیاں تو قابلِ نفرت ہیں ہی لیکن ملالہ تو اُن سے بھی کہیں آگے کی ”پہنچی ہوئی شٔے” نکلی ۔جس ملک میں ملالہ کو چاہنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہو وہاں لبوں پہ بے اختیار آ جاتا ہے کہ
اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے
اُمت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
عقل کو دنگ کر دینے والے کارنامے اُنہی لوگوں نے سرانجام دیئے جو اپنے جذبۂ ایمانی پر مضبوطی سے جمے رہے۔ ہم اُس دینِ مبیں کے پیروکار ہیں جو ہمیں اپنے گھوڑے ہمیشہ تیار رکھنے کا حکم دیتا ہے لیکن ہمارے سیکولر مہربان ہمیشہ یہی پرچار کرتے ہیں کہ ہمارے پاس تو کوئی ”گھوڑا” ہی نہیں جسے تیار رکھا جائے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ایمان مضبوط ہو اور عزم صمیم تو ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے جو کسی بھی جارح کا مُنہ توڑ جواب دینے کے لیے کافی ہے، بس تھوڑی ہمت ، جرأت اور حوصلے کی ضرورت ہے۔

Khurshid Shah

Khurshid Shah

ہمارا ہمیشہ یہی المیہ رہا ہے کہ ہمارے کسی بھی حاکم نے کبھی بھی جارح امریکہ کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر کبھی عمل نہیں کیا۔ آج تو قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ یہ فرماتے ہیں کہ”پاکستان کو امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی چاہیے۔ پاکستان خود ایک طاقت ہے اور امریکہ پر دباؤ ڈال سکتا ہے اور امریکہ نے دنیا پر حکومت کرنے کے لیے پاکستان کو آگ میںد ھکیل رکھا ہے لیکن اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں شاہ صاحب کی پیپلز پارٹی کو یہ سب کچھ کہنے کی ہمت ہوئی نہ توفیق۔ محترم عمران خاں بھی ابتداء میں امریکہ پر خوب گرجتے برستے رہے لیکن جونہی اُنہیں یقین ہو نے لگا کہ وہ دو تہائی اکثریت حاصل کرلیں گے ، اُن کا امریکہ کے بارے میں رویہ انتہائی محتاط ہو گیا۔ انتخابی مہم میں وہ نواز لیگ اور مولانا فضل ارحمٰن پر گرجتے برستے رہے لیکن امریکہ کا نام لینا بھول گئے حالانکہ وہ اُس وقت بھی جانتے تھے کہ امریکہ کبھی ہمارا دوست تھا، ہے اور نہ ہو گا۔ یہ تو خیر امریکی دوستی کے قصیدے پڑھنے والے بھی جانتے ہیں کہ ہمیں کسی دشمن نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا اِس ”جہنم سے نکلے ہوئے ” دوست نے۔ 1948ء سے 2012ء یعنی آزادی سے اب تک امریکہ نے ہمیں 68 ارب ڈالر کی امداد دی ہے جبکہ 100 ارب ڈالر سے زائد تو ہم افغانستان میں لڑی جانے والی اندھی امریکی جنگ میں جھونک چکے ہیں۔

برباد معیشت اور پچاس ہزار انسانی جانوں کا زیاں بھی اسی جنگ کا تحفہ ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ترجمان نے اپنی پریس بریفنگ میں ڈرون حملوں کو ماورائے عدالت قتل اور جنگی جرم قرار دیا ہے۔ ترجمان کے مطابق خفیہ ڈرون پروگرام امریکہ کو قتلِ عام کا لائسنس دیتا ہے۔ جبکہ ہمارا ”مخلص دوست” امریکہ کہتا ہے ”ڈرون حملے عالمی قوانین کی خلاف ورزی نہیں ۔ڈرون حملوں کا آپشن کم سے کم انسانی جانوں کے زیاں کی وجہ سے اپنایا گیا ”۔اِس کم سے کم انسانی زیاں کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان پر 400 ڈرون حملے ہوئے، 3600 افراد مارے گئے جن میں سے کم از کم 900 سے زائد مکمل طور پر بے گناہ تھے۔میاں نواز شریف صاحب نے تو لگی لپٹی رکھے بغیر ڈرون حملوں پر بارک اوباما کو اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا لیکن پریس بریفنگ میں اوباما ڈرون حملوں کے ذکر کو گول کر گئے البتہ میاں نواز شریف صاحب نے اُسی پریس بریفنگ میں ڈرون حملوں پر اپنے تحفظات کا ذکر کر دیا۔اگر زمینی حقائق کو مدِنظر رکھا جائے تو دو تہائی اکثریت کے حامل وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کو فوج کی بھرپور حمایت حاصل ہے ، اپوزیشن نہ ہونے کے برابر اورقوم تا حال اُن سے اُمیدیں باندھے بیٹھی ہے اِس لیے یہی موقع تھا کہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جاتی۔یقیناََ میاں صاحب کو بھی اِس کاادراک تھا اسی لیے اُنہوں نے وائٹ ہاؤس میں اوباما کے ساتھ ملاقات کے دوران تمام حساس معاملات پر کھُل کر بات کی اور ڈرونز ، ایڈ نہیں ٹریڈ، مسٔلہ کشمیر ، دہشت گردی اور عافیہ صدیقی کی رہائی جیسے مطالبات امریکی صدر کے سامنے رکھے۔حکومتِ ہند کو اپنے دل کے بہت قریب رکھنے والے اوباما نے مسٔلہ کشمیر کا ذکر گول کرتے ہوئے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ پاکستان بمبئی حملوں اور جماعت الدعوة پر مثبت رویہ اختیار کرے۔مجموعی طور پر یہ ایک تعارفی تقریب تھی جو مذاکرات کی راہ ہموار کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اِس دورے سے زیادہ توقعات رکھنا محض خوش فہمی ہو گی۔

واشنگٹن میں ”انسٹیٹیوٹ آف پیس” سے خطاب کرتے ہوئے کہا ” ایک امریکی کال پر لیٹ جانے والے پاکستان کے حقیقی نمائندے نہیں۔ امریکہ ہماری عزت کرے اور ہم سے اپنی عزت کروائے۔ ڈرون حملے ہماری سلامتی کی راہ میں رکاوٹ ہیں جنہیں بند ہونا چاہیے۔ اسی کی بازگشت نواز، اوباما ملاقات میں بھی سنائی دی۔

یہ بجا کہ ہمارے وزیرِ اعظم امریکہ سے خالی ہاتھ لوٹ رہے ہیں لیکن اُنہوں نے یہ پیغام ضرور دے دیا ہے کہ وہ مشرف نہیں اور اب Do more امریکہ کی باری ہے۔ امریکہ کے دل میں بیٹھ کر ایسی کھری کھری باتیں شاید اِس سے پہلے کسی حاکم کو نصیب نہیں ہوئیں۔ اب سیّد خورشید شاہ صاحب کو مطمعن ہو جانا چاہیے کہ میاں صاحب نے شاہ صاحب کے فرمان کے مطابق واقعی ”امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر”بات کی۔

Professor Mazhar

Professor Mazhar

تحریر : پروفیسر مظہر