اسلام آباد (جیوڈیسک) سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں پروسیکیوٹر اکرم شیخ نے کہا ہے کہ ایمرجنسی لگانے کے حوالے سے وزیر اعظم کی ایڈوائس کا کوئی ریکارڈ نہیں ملا اور یہ مقدمے کو الجھانے کی کوشش ہے۔ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سابق صدر کے خلاف غداری کیس کی سماعت کی تو پراسکیوٹر اکرم شیخ نے شریک ملزمان کیخلاف مقدمے کی کارروائی سے متعلق تحریری جواب خصوصی عدالت میں جمع کرا دیا۔ تحریری جواب میں کہا گیا تھا کہ شریک ملزمان سے متعلق مشرف کی درخواست کارروائی کو الجھانے کی کوشش ہے جبکہ شریک ملزمان سے متعلق درخواست مبہم اور مفروضوں پر مبنی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شریک ملزمان کا نکتہ شہادتوں کے مرحلے پر اٹھایا جاتا ہے، خصوصی عدالت شریک ملزمان بارے 7 مارچ کو فیصلہ دے چکی ہے، فرد کا نام شکایت میں شامل نہیں اسے مقدمہ میں شریک کرنا ضروری نہیں۔ اکرم شیخ نے جواب میں کہا تھا کہ جے آئی ٹی کے تینوں افسران کا نام گواہان میں شامل ہے، ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق صرف پرویز مشرف کیخلاف ثبوت ملے ہیں،اس لیے کسی شریک ملزم کا نام غداری کیس میں شکایت میں شامل نہیں کیا گیا۔
اس موقع پر مشرف کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ جواب کی کاپی آج موصول ہوئی ہے۔ حکومتی وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم کے دفتر میں ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے کوئی ایڈوائس یا سمری موجود نہیں، ایمرجنسی کے فرمان میں جن سے مشاورت کا تذکرہ کیا گیا تو اس کا علم صرف مشرف کو ہو گا جبکہ کابینہ کی منظوری کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کیا اس کی چھان بین کی گئی جس پر اکرم شیخ نے ہاں میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ جوائنٹ سیکرٹری داخلہ رپورٹ لے کر آئے ہیں، عدالت جب چاہے گی پیش کردیں گے۔ اکرم شیخ نے سوال کیا کہ کہا کہ موجودہ حکومت کو کیسے علم ہو سکتا ہے کہ ایمرجنسی کا مشورہ دینے والے مشیر کون تھے، ان کی نشاندہی پرویز مشرف کر سکتے ہیں۔
سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کے مطابق کسی مرحلے پر مشاورت کے کوئی شواہد نہیں ملے، بغیر ثبوت یا غلط الزام پر کسی کے خلاف کارروائی کرنا حکومت کا غیر آئینی اقدام ہو گا، یہ فئیر ٹرائل کے بنیادی حق کے بھی منافی ہو گا۔