تحریر: انجینئر افتخار چودھری ٢٠٠٤ میں تھائی لینڈ جانے کا اتفاق ہوا بنکاک شہر کے ہنگامے اپنی جگہ مگر میرے ساتھ جانے والے دو نوجوان جو ٹیوٹا اسلام آباد کی جانب سے گئے تھے۔ انہیں بڑا سر گرم پایا میرا خیال تھا احسن اور زیدی مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گے لیکن بعد میں مجھے محسوس ہوا مجھے اگر کہیں جانا ہے تو جناب صفدر اعوان کے ساتھ۔پچاس کے پیٹے میں گزرتے دنوں میں ہمیں نوجوان کہاں ساتھ لے جاتے۔ایک روز پوچھا کہ سنائیے آج کدھر تھے تو انہوں نے بتایا کہ میٹرو کی سیر کی ہے۔دونوں اس عجوبے کی بات کر کے مجھے متآثر کئے جا رہے تھے۔
پھر ایک زمانہ گزرا میں ایک بار پھر سات سال رگڑے کھانے کے بعد جنرل موٹرز کے بلاوے پر الریاض چلا گیا۔اس کے بعد تو دنیا میرے پروں کے نیچے تھی۔جرمنی یوکرائن انڈونیشیا کوریا دبئی کویت بنجارہ گھومتا رہا۔میٹرو کئی شہروں میں نظر آئی۔مجھے سچی بات ہے اچھا لگا۔میں نے جن ملکوں میں ٹرانسپورٹ کے یہ ذرائع دیکھے وہاں کی عوام کی حالت مجھے بہت اچھی نظر ایک تھائی لینڈ ایسے لگا کہ ہماری طرح ہے۔جرمنی ترکی اور دیگر ملکوں کے ہوائی مستقر دیکھ لیں تو بندہ گم ہو کے رہ جائے ۔جرمنی کا تو میں نام لے گیا آپ استنبول جائیں تو وہاں پنجابی کا محاورہ درست ثابت ہوتا ہے استنبول کج نہ پھول۔ میٹرو ہمارے شہروں میں بھی آ چکی ہے لاہور تو اس سے استفادہ کر رہا ہے۔
شہروں کے حسن اس سے بڑھ رہے ہیں۔لیکن میں نے ایک بات محسوس کی کہ ہم جس طرح شادی بیاہ پر اسراف کر کے کپڑے بنا لیتے ہیں ہم نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ہے۔میٹرو ابھی ہماری دسترس میں نہیں ہونا چاہئیے تھی۔ابھی بہت کچھ کرنا ہے ہمیں۔ہماری تعلیمی حالت بنگلہ دیش سے بھی گئی گزری ہے۔ادھار کی شراب پر نشے میں پاکستان کدھر جا رہا ہے۔مجھے کہنے دیجئے کہ ہماری جو ترجیحات ہونا چاہئیں وہ ہیں نہیں۔میں سنکی نہیں جو اچھے کام کی تعریف نہ کروں مجھے علم ہے کہ جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے۔پاکستان نے نواز شریف کے دور میں ایک اچھا کام کیا موٹر وے بنا لیا لیکن کیا آپ کو علم ہے کہ اس پراجیکٹ میں کک بیکس کی کیا جسامت تھی؟بی او ٹی بنیاد پر بننے والے اس منصوبے سے ملینز ڈالرز اڑا لئے گئے۔
Pakistan
ہمارے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر حکومت وقت نے اپنے نمبر بھی ٹانک لئے۔میں کوئی آڈیٹر نہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ پنڈی میٹرو میں بہت کچھ کالا ہوا ہے ۔پچھلے ہفتے ایک ٹی وی ٹاک شو مین اس کی طرف انگلی بھی اٹھی ہے۔ایک ہارے ہوئے ایم این اے کے بارے میں تو بتایا گیا کہ موصوف نے اس منصوبے سے پونے دو ارب اڑا کر لندن میں جگہ خریدی ہے۔کند ہم جنس باہم پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز آخر ان کے بڑے جب ملٹی ملینز پونڈ کے محلات میں رہیں گے تو چیلے بھی تو وہی کچھ کریں گے۔الناس علی دین ملوکھم لوگ اپنے بادشاہوں کے راستے پر چلتے ہیں۔ہمارے لئے میٹرو کی چمک دار لائٹیں اور انگلستان کا بسیرہ کرنے والوں کے لئے وہاں کی رونقیں۔
میں نے جیسے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ ہم اس قسم کی سہولیات کے خلاف نہیں ہیں لیکن عوام کی جو بنیادی ضرورتیں ہیں انہیں پورا کرنا تو ہمارا فرض بنتا ہے۔آپ ذرا پیر سوہاوہ ٹاپ سے ذرا ہمارے علاقے کی طرف اتریں آپ کو علم ہو جائے گا کہ دو سال میں پی ٹی آئی نے وہاں کیا بدلا ہے۔بہت سارے صحافی بھائی ٹاک شو میں صرف کہہ کر گزارا کرتے ہیں کہ کے پی کے میں کچھ نہیں بدلا۔دوستو یقینا پی ٹی آئی نے آسمان کا رنگ اور زمین کی ھیئت نہیں بدلی مگر اسکول تھانہ کلچر محکمہ مال محکمہ صحت میں زبردست تبدیلیاں لائی ہیں۔مجھے اپنی ذات کے حوالے سے تجربات کی بات کرنی ہے۔پنجاب کے محکمہ صحت کی حالت یہ ہے کہ نوجوان ڈاکٹروں کو بہانے بہانے سے نوکریوں سے فارغ کیا جا رہا ہے۔اگر ان کی ٹرانسفر دوسرے شہروں میں ہو جاتی ہے تو تین چار ماہ تک انہیں تنخواہ نہیں ملتی۔میں سلامن رفیق سے یہ پوچھ سکتا ہوں کہ ضلع جہلم سے گجرانوالہ تبدیل ہونے والے ڈاکٹر کو چار ماہ تک تنخواہ کیوں نہیں ملتی۔آپ ایک کام کریں اس ڈاکتر کے بچوں کو میٹرو کا ایک ڈبہ دے دیں تا کہ وہ اس سے بہل جائے۔جی ٹی روڈ کی حالت یہ ہے کہ پنڈی سے گجرانوالہ جاتے ہوئے آپ ایسی سڑک پر نکل پڑتے ہیں جو شیر شاہ سوری کے گھوڑوں کے لئے بنائی گئی تھی۔بدلتے پنجاب کے رنگ تو ہم کبھی ماڈل ٹائون کبھی ڈسکہ میں دیکھ لیتے ہیں اللہ کرے آپ پاکستان کو ایسا نہ بدل کے رکھ دیں کہ یہ ملک پہچانا ہی نہ جائے۔
Lahore
حکمرانو! پاکستان لاہور نہیں ہے اور نہ ہی پنجاب لاہور ہے۔خدا کے لئے پنجابیو کو گالی مت بنائیں۔پنجاب کے لوگ اپنا حصہ اپنی روٹی اور اپنی خوشی سب کے ساتھ بانٹنے کے لئے تیار ہیں۔ میٹرو ضرور بنائے گا مگر اس سے پہلے پاکستان میں وسائل کی برابر تقسیم کرتے ہوئے راجن پور میر پور متھیلو زوب ناران کاغان سکردو کو بھی اپنا حصہ دیجئے گا۔ان نئے فتنوں میں اب ایک اور اٹھا ہے جو لوگوں کو لاہوری شہنشاہوں سے مزید دور کر دے گا وہ پاک چائینہ اکنامک کاریڈور ہے۔مہربانی کیجئے اسے اس کے اپنے اصل راستے پر رہنے دیں۔اس سے پاکستان کے استھکام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ہماری ترجیحات اور حکمرانوں کی دل چسپیاں اللہ اللہ۔ قارئین کل یوم تکبیر گزرا ہے۔قوم کو مبارک ہو۔جنرل مشرف دور میں تو یہ صلاحیت ہمارے پیٹے پڑ گئی تھی لگتا تھا کہ یہ ہماری حفاظت کے لئے نہیں ہم اس کی حفاظت کے لئے زمین پر اتارے گئے ہیں۔ڈاکٹر قدیر خان کیا کہتے ہیں ان کی بھی سنئے گا۔
ایک اور مرد درویش بھی تھا کہ جس نے کہا کہ جناب وزیر اعظم دھماکہ کیجئے ورنہ قوم آپ کا کر دے گی۔انہیں کیوں ضرورت پیش آئی۔حال دل جاننے والے بتائیں۔٢٩ مئی میرے لئے یوم سیاہ بھی ہے اور نجات بھی اسی دن مجھے ٢٠٠٢ میں ٧١ دن بند رکھنے کے بعد جدہ سے نکالا گیا تھا قصور کیا تھا کبھی جنرل اسد درانی سے روک کر پوچھئے گا۔نواز شریف اور شہباز شریف صاحبان کو تو وہ دن بھول گئے ہیں۔بہر حال اپنی قربانیاں جمہوریت کے لئے تھیں کسی کی ذات کے لئے نہیں۔اپنی ترجیحات اور حکمرانون کی دل چسپیاں مختلف رہی ہیں حکمران چاہے آمر ہو یا سول۔