دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں قیدیوں کو وہ تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جو کہ ایک عام انسان کو تا کہ جب وہ اپنے جرم کی سزا مکمل کرنے کے بعد زندان سے باہر نکلے تو اپنے آپ کو معاشرے کا ایک عام انسان اور اہم رکن تصور کرتے ہوئے اپنی نئی زندگی کا آغاز کرے اور معاشرے میں ایک مثبت کردار ادا کر سکے۔ مگر ہمارے ہاں قیدیوں کو جس اذیت و کوفت میں رکھا جاتا ہے اس سے ان کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو معاشرے سے الگ تھلگ تصور کرنے لگ جاتے ہیں۔ اول تو بے شمار قیدی ایسے بھی زندانوں میں محصور ہیں جن کا جرم ابھی تک ثابت ہی نہیں ہوا ابھی وہ سزا یافتہ نہیں ہیں مگر وہ سزا کاٹ رہے ہیں جس کی وجہ سے اکثر بیرکس میں گنجائش سے زیادہ قیدی رکھنے پڑتے ہیں۔
خواجہ سرائوں، بچوں اور بیماروں کیلئے علیحدہ بیرکس موجود نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ ملک کی اکثر بڑی جیلوں میں بھی معذوروں کیلئے ریمپ تو دور کی بات ٹوائلٹ تک موجود نہیں۔ اسی حوالے سے ایک تشویشناک حالیہ رپورٹ ہم آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں جس کو جان کر آپ کے رونگھٹے کھڑے ہو جائیں گے ذرا ملاحظہ کیجئے، یہ رپورٹ وفاقی وزارت انسانی حقوق کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی ہے جس میں انکشاف ہوا ہے کے اس وقت ملک کے چاروں صوبوں میں 60 فیصد سے زائد قیدی غیر سزا یافتہ ہیں۔
چاروں صوبوں کی جیلوں میں موجود قیدیوں میں سے 2 ہزار 192 شدید بیمار ہیں جبکہ ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس اور دیگرمہلک بیماریوں میں مبتلا قیدیوں کی مجموعی تعداد 5 ہزار 206 ہے ،اور جو انکشاف انتہائی خطرناک ہے وہ یہ کہ ان غیر سزا یافتہ قیدیوں جوجیل کی زبان میں حوالاتی کہلواتے ہیں،ان میں سے 425 قیدی ایچ آئی وی کا شکار ہیں یہاں آپ کو ایچ آئی وی کے متعلق بھی آگاہ کرتے چلیں کہ یہ ایک ایسا خطرناک وائرس ہے جو جسم میں داخل ہو کر آہستہ آہستہ اپنی تعداد اور تخریب کاری میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے اور سب سے ذیادہ نقصان یہ خون کے سفید خلیات کو پہنچاتا ہے جب یہ ایڈز وائرس خون کے خلیات کو مسلسل ختم کرتا رہے تو انسانی جسم میں ان کی تعداد کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کی وجہ سے انسان میں قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے اور انسان بیماریوں کیخلاف اندرونی طورپر دفاع کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ گو کہ ایڈز کا علاج کیا جا سکتا ہے جو متاثرہ شخص کی زندگی میں کچھ طوالت کر سکتا ہے لیکن اس مرض کی ابھی تک کوئی یقینی شفاء نہیں دریافت کی جا سکی۔ اگرصوبائی سطح کی بات کی جائے تو پنجاب کی جیل خانہ جات میں 255 مرد اور 2 خواتین ایچ آئی وی کا شکار ہیں، اسی طرح سندھ میں 115 مرد اور ایک خاتون قیدی، کے پی کے میں 39 مرد اور بلوچستان کی جیلوں میں 13 قیدی ایچ آئی وی کے مرض میں مبتلا ہیں۔
جیلوں میں موجود ایک ہزار سے زائد قیدی ہیپاٹائٹس کا بھی شکار ہیں، اس فہرست میں پنجاب کی جیلوں میں سب سے زیادہ قیدی ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں۔پنجاب کی جیلوں میں ایک ہزار 47 مرد اور 2 خواتین قیدی ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہیں، دیگر صوبوں میں سندھ میں 461 مرد اور ایک خاتون قیدی، کے پی میں 208 اور بلوچستان میں 72 مرد قیدی ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں۔
پنجاب کی جیلوں میں 290 مرد اور 8 خواتین ذہنی امراض میں مبتلا ہیں، سندھ میں 50، کے پی کے میں 235 اور بلوچستان میں 11 قیدی ذہنی امراض کا شکار ہیں۔پاکستان کی 114 جیلوں میں گنجائش سے 19 ہزار قیدی زیادہ ہیںٹی بی کے شکار قیدیوں کی فہرست بتاتی ہے کہ پنجاب کی جیلوں میں 87 قیدی، سندھ میں 50، کے پی کے میں 27 اور بلوچستان میں 7 قیدیوں کو ٹی بی کا عارضہ لاحق ہے۔ دیگر بیماریوں میں مبتلا قیدیوں میں پنجاب میں ایک ہزار 453 مرد اور 27 خواتین قیدی، سندھ میں 50، کے پی میں 642 مرد اور 20 خواتین قیدی شامل ہیں۔چاروں صوبوں کے جیلوں میں طبی سہولیات کے حوالے سے متعلقہ آئی جیز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں 64 مرد اور 23 خواتین میڈیکل افسران ہیں جبکہ 36 مرد اور 9 خواتین کی آسامیاں خالی ہیں، سندھ میں 47 مرد اور 7 خواتین افسر موجود ہیں جبکہ 31 مرد اور 6 خواتین میڈیکل افسران کی مزید ضرورت ہے۔کے پی کے میں 31 مرد اور 5 خواتین میڈیکل افسران قیدیوں کی صحت کے حوالے سے خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ 17 مرد اور 2 خواتین افسران کی جگہ خالی ہے، اسی طرح بلوچستان میں 12 مرد اور 4 خواتین میڈیکل افسران موجود ہیں جبکہ خالی آسامیوں کی تعداد 4 مرد اور 3 خواتین سمیت 7 ہے۔
صرف کے پی کے میں 2 ڈینٹسٹ موجود ہیں جبکہ دیگر صوبوں میں کوئی ڈینٹسٹ موجود ہی نہیں۔ پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے 57 فیصد زائدچاروں صوبوں میں قید 65 فیصد افراد بغیر کسی سزا کے جیلوں میں موجود ہیں جن میں سب سے زیادہ تعداد کے پی کے میں ہے جہاں 71 فیصد قیدی بغیر سزا کے قید کاٹ رہے ہیں۔سندھ میں 70 فیصد، بلوچستان کی جیلوں میں 59 فیصد اور پنجاب میں 55 فیصد قیدیوں کے مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوا اور نہ ہی عدالتوں کی جانب سے انہیں کوئی سزا دی گئی ہے۔ پنجاب میں مجموعی طور پر 45 ہزار 324 افراد قید ہیں جن میں سے 25 ہزار 54 کے مقدمات زیر سماعت ہیں، کے پی کے میں قیدیوں کی مجموعی تعداد 9 ہزار 900 ہے جن میں سے 7 ہزار 67 قیدیوں کے مقدمات پر کوئی فیصلہ نہیں سنایا گیا۔
سندھ کی مختلف جیلوں میں 16 ہزار 315 افراد قید ہیں جن میں سے 11 ہزار 488 افراد کے مقدمات کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا، بلوچستان میں 2 ہزار 122 قیدیوں میں سے ایک ہزار 244 قیدیوں کو کوئی سزا نہیں سنائی گئی اور ان کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ یقیناً اس طرح رپورٹس دیکھ کر ہر باضمیراورباشعور انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہر درد دل رکھنے والے انسان کو ہلا دینے کیلئے کافی ہیں۔ موجودہ حکومت اس حوالے سے کچھ دعوے اور وعدے تو کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے مگر ہم امید کرتے ہیں کہ تبدیلی سرکار جو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا بارہا دعویٰ کر چکی ہے۔
ریاست مدینہ ، اسلام اور عالمی انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے غیر سزا یافتہ قیدیوں کے مقدمات، خواجہ سراؤں، عورتوں، بچوں اور معذوروں کیلئے سہولیات ،بے گناہ قیدیوں کی رہائی اور مریض قیدیوں کیلئے دوا اور ڈاکٹرزکی بر وقت فراہمی کیلئے بروقت ٹھوس اقدامات کرے گی۔ کیونکہ اسیران بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ اگر نظام معاشرت کو بہتر طور پر چلانا ہے تو انہیں نظام سے الگ نہیں کیا جا سکتا بالکل ایسے ہی جیسے جسم کے کسی حصے میں بیماری ہو جائے تو اس کا علاج کیا جاتا ہے اسے کاٹ کر علیحدہ نہیں کیا جاتا۔