قیدیوں کے تبادلے پر ریپبلکن پارٹی کی سخت تنقید

Republicans, Party

Republicans, Party

امریکہ (جیوڈیسک) کی بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان طالبان کی قید سے ایک امریکی قیدی کی رہائی کے بدلے گوانتانامو کے پانچ قیدیوں کے تبادلے پر رسہ کشی جاری ہے۔ امریکہ کی اہم جماعت ریپبلکن پارٹی نے کہا ہے کہ اس سے امریکیوں کی جانیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔

سابق صدارتی امیدوار سینیٹر جان میک کین نے کہا کہ جن قیدیوں کو قطر کے حوالے کیا گیا ہے وہ ’انتہائی خطرناک قسم کے لوگوں‘ میں شامل ہیں۔ ادھر افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر نے ایک بیان میں امریکی فوجی کے بدلے پانچ طالبان رہنماؤں کی رہائی کو’ بڑی فتح‘ قرار دیا ہے۔ ملا عمر کے بیان میں’مسلمان افغان قوم کو دل کی گہرائی سے مبارکباد دی گئی ہے۔‘

واضح رہے کہ افغانستان نے بھی قیدیوں کے اس تبادلے کی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ قیدیوں کو ایک تیسرے ملک کے حوالے کیا جانا ’بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔‘ 28 سالہ امریکی سارجنٹ بووی رابرٹ برگڈل کو تقریباً پانچ سال بعد طالبان کی قید سے سنیچر کو رہائی ملی ہے اور انھیں امریکہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

اتوار کو انتہائی جذباتی خطاب میں ان کے والد رابرٹ برگڈل نے کہا کہ ان کو اپنے بیٹے پر فخر ہے کہ ان کا بیٹا افغان باشندوں کی مدد کرنے کا خواہاں تھا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس کی بازیابی میں لمبا عرصہ لگے گا۔

انھوں نے کہا کہ ابھی انھوں نے اپنے فوجی بیٹے سے بات نہیں کی ہے تاہم اس کی حالت اچھی ہے اور فی الحال جرمنی میں قائم ایک امریکی ہسپتال میں اس کا طبی معائنہ جاری ہے۔ بہت سے ریپبلکن رہنماؤں نے اس معاہدے کی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ایک ’خراب روش قائم ہوتی ہے‘ اور یہ ایسا ہی جیسے ’دہشت گردوں سے سودا کرنا۔‘

سینیٹر میک کین نے سی بی ایس ٹی وی پر ایک بیان میں کہا کہ ’جو طالبان رہا کیے گئے ہیں وہ ممکنہ طور پر ہزاروں لوگوں کے قتل کے ذمہ دار ہیں اور وہ دوبارہ جنگ میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘ ہاؤس انٹیلیجنس کمیٹی کے سربراہ ریپبلکن مائک روجرس نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن نے القاعدہ کے تاوان کے لیے اب ’ایک قیمت طے کردی ہے۔‘

ریپبلکن پارٹی کے نمائندے ایڈم کنزنجر نے کہا کہ وہ سرجنٹ برگڈل کی واپسی کا جشن منائیں گے لیکن افغان قیدیوں کی رہائی کو ’افسوسناک‘ قرار دیا۔ اس تبادلے کے معاہدے کی قانونی حیثیت پر بھی سوالات اٹھائے گئے کیونکہ اوباما انتظامیہ نے کانگریس کو طالبان قیدیوں کی منتقلی کے بارے میں مناسب نوٹس نہیں دیا۔

لیکن وزیر دفاع چک ہیگل جو فی الحال افغانستان کے دورے پر ہیں، انھوں نے فوری طور پر ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ فوج کو اس کی جان بچانے کے لیے فوری عمل کرنا پڑا انھوں نے این بی سی ٹی وی کو بتایا کہ ’ہم نے دہشت گردوں سے کوئی سودا نہیں کیا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی واضح کیا ہے کہ سرجنٹ برگڈل جنگی قیدی تھے اور اپنے قیدی واپس لینے کے لیے یہ معمول کی کارروائی ہے۔‘

امریکی قومی سلامتی کی مشیر سوزین رائس نے کہا کہ سرجنٹ برگڈل کی گرتی صحت نے ’انتہائی تیزی کے ساتھ عمل کرنے‘ پر مجبور کردیا تھا اور اسی لیے ’ضروری اور مناسب‘ یہی سمجھا گیا کہ 30 دنوں کے نوٹس ضابطے کا خیال نہ رکھا جائے۔