جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن سکیورٹی اداروں کو مجرموں اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں صارفین کے موبائل اور انٹرنیٹ ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت ہے۔ اب وفاقی جرمن آئینی عدالت نے اسے بنیادی حقوق کے قانون کی خلاف ورزی قرار دے دیا ہے۔
جرمنی میں شہری حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں پہلے ہی سکیورٹی اداروں کی شہریوں کے نجی ڈیٹا تک رسائی کو تنقید کا نشانہ بناتی آئی ہیں۔ ناقدین کا کہنا تھا کہ ریاست کے لیے کسی شہری کے نجی ڈیٹا تک رسائی کو بہت آسان بنا دیا گیا ہے اور اس عمل کو مشکل بنانے کی ضرورت ہے۔ جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت نے اب اپنا فیصلہ ان ناقدین کے حق میں سنایا ہے۔
جرمنی آئینی عدالت کے مطابق انسداد دہشت گردی اور مجرموں کو پکڑنے کے نام پر ریاست کی عام شہریوں کی نجی معلومات تک رسائی بہت ہی زیادہ ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق نام نہاد ڈیٹا کا حصول کے لیے بنائے گئے متعدد ضوابط غیر آئینی ہیں۔ جمعہ سترہ جولائی کے روز جرمن شہر کارلسروئے میں واقع اس وفاقی عدالت نے کہا، ”یہ (ضوابط) مواصلاتی رازداری اور معلومات فراہم کرنے کے بنیادی حق خود ارادیت کی نفی کرتے ہیں۔‘‘
اس عدالتی فیصلے کے بعد جرمن ریاست کو ٹیلی مواصلاتی ایکٹ اور اس سے متعلقہ قواعد و ضوابط میں سن دو ہزار اکیس کے آخر تک ترمیم کرنا ہو گی۔ جب تک یہ ترامیم نہیں کی جاتیں، موجودہ قوانین ہی رائج رہیں گے۔ قبل ازیں ایک ٹیلی کمیونیکیشن قانون بنایا گیا تھا، جس کے تحت جرمن پولیس، انسداد جرائم کے وفاقی ادارے اور خفیہ ایجنسیوں کو جرائم کے ارتکاب یا دہشت گردانہ واقعات کو روکنے کے لیے مخصوص شرائط پوری کرتے ہوئے کسی بھی مشتبہ شخص کے نجی ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت تھی۔ مثال کے طور پر یہ ریاستی ادارے انٹرنیٹ اور موبائل فون کمپنیوں سے صارف کا نام، پتہ، تاریخ پیدائش اور اس کے سمارٹ فون یا کمپیوٹر کا آئی پی ایڈریس بھی پوچھ سکتے تھے۔
عدالت کے مطابق سکیورٹی ادارے اب بھی ایسا کرنے کے مجاز ہوں گے لیکن انہیں اس کے لیے طے شدہ مخصوص شرائط پوری کرنا ہوں گی۔ یہ شرائط بھی سخت بنا دی گئی ہیں اور ریاستی اداروں کو یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ کسی جرم یا دہشت گردی کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔ تاہم اگر ادارے اس قانون کو ایسے ہی چلانا چاہتے ہیں، تو جرمن حکومت کو ٹیلی مواصلاتی ایکٹ میں تبدیلی لانا ہو گی۔
جو شخص بھی انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے، اس کے موبائل فون یا کمپیوٹر کا ایک مخصوص آئی پی ایڈریس ہوتا ہے، جس سے اس شخص کی شناخت کا پتا چلایا جا سکتا ہے۔ جرمنی میں اس آئی پی ایڈریس کے تحفظ کے لیے خاص قوانین موجود ہیں۔
آج کے عدالتی فیصلے کی وجہ دو آئینی شکایات بنی تھیں۔ ان میں سے ایک درخواست انٹرنیٹ کی آزادی کے لیے کام کرنے والی سیاسی جماعت ‘پیراٹن‘ کے پیٹرک بریئر اور دوسری انہی کی ایک سابقہ خاتون ساتھی کاتارینا نوکون نے دائر کی تھی۔ ان دونوں کو اپنے ہزاروں ساتھیوں اور پارٹی کارکنوں کی حمایت حاصل تھی۔