کسی ملک کی ترقی کا اندازہ اس کی شرح خواندگی سے لگایا جاسکتا ہے۔ دنیا میں وہ ممالک جو ترقی یافتہ ہیں وہ عموماً 100 فیصد شرح خواندگی کے حامل ہیں۔ اگر پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان میں تعلیمی میدان میں صرف واجبی خواندہ افراد، یعنی جو اپنا نام لکھنا اور پڑھنا جانتے ہوں، انھیں خواندہ تسلیم کر کے شرح خواندگی کے اعداد و شمار نکالے جائیں تو بھی بمشکل 70 فیصد تک پہنچتے ہیں۔پاکستان میں تعلیم کے نام پر دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں مگر عملی کام صرف کاغذوں تک محدود رہتا ہے یا میڈیا کی زینت بنتا ہے۔
جب سے نئی حکومت آئی ہے وہ تعلیم کے میدان میں ترقی کے بجائے اسے پتھر کے زمانے میں دھکیل رہی ہے۔ایک طرف دعویٰ تو نظام تعلیم کو بہتر بنانے کا کیا جا رہا ہے دوسری طرف اس کے نتائج صفر آرہے ہیں۔ اس حقیقت سے انکارنہیں کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک جہاں حکومت تعلیم کے میدان میں سرگرم ہے ادھر پرائیویٹ سیکٹر بھی اپنے ملک کی ترقی کے لیے حکومت کا ہاتھ بٹانے میں مصروف ر ہا۔یہ بھی سچ ہے کہ گورنمنٹ سکولزسارا تعلیمی بوجھ اکیلے برداشت نہیں کر سکتے ۔
تاریخ اٹھا کر دیکھ لو کہ پاکستان میں بہت سے ایسے ادارے جو گورنمنٹ کے ماتحت تھے ان کو یہ کہہ کر پرائیویٹ کردیا جاتا ہے کہ یہ حکومت پر بوجھ ہیں اور یہ ادارے خسارے میں جارہے ہیںحتٰی کہ ریلوے جیسے محکمے میںجہاں نئی ٹرینوں کا افتتاح کیا جارہا ہے ادھر بھی ٹرینیں پرائیویٹ کی ہوئی ہیں ۔ پی آئی اے اور سٹیل ملز کو بھی پرائیویٹ کرنے کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔
تعلیم کے میدان میں گورنمنٹ سکولز سے پرائیویٹ سکولزاچھی تعلیم کی بدولت شاندار رزلٹ دے رہے ہیں ادھر حکومت انہیں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ذلیل و خوار کررہی ہے۔محکمہ تعلیم جو حکومت کا اپنا ادارہ ہے وہ دونوں تعلیمی اداروں(پرائیویٹ اور گورنمنٹ) کا ریکارڈ چیک کرلے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی صاف ہو جائے گا۔
اللہ جانتا ہے کہ کون ہے وہ جو حکومتی کرتا دھرتاؤں کے کان بھر رہا ہے کہ ملک کی تعلیم کا بیڑا غرق پرائیویٹ ادارے کررہے ہیں جبکہ گورنمنٹ سکولز تو بہت اچھا چل رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف صوبائی وزیر تعلیم کو سب اچھا کی رپورٹ دی جارہی ہے جبکہ وہ سب غلط ہیں۔ گورنمنٹ سکولز میں اس بار بھی پیک کے ایگزام میں اچھا رزلٹ لینے کے لیے ٹیچرزنے خود نقل کرائی اور ضلعی سی او اپنے ضلع کوبہتر پوزیشن میں لانے کے چکر میں سب جائز ناجائز کرنے کو تیار ہیں۔
پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے سوتیلے پن پر سوال یہ جنم لیتے ہیں کہ کیا یہ ادارے گورنمنٹ کو ٹیکس دیکر رجسٹریشن حاصل نہیں کرتے؟ جب پرائیویٹ سکولزرجسٹریشن کے لیے اپنی فائلز جمع کراتے ہیں تو کیا وہ محکمہ تعلیم کی شرائط پر پورا نہیں اترتے؟نرسری تا مڈل سکولز تک تمام پرائیویٹ ادارے ہیلتھ ، بلڈنگ سرٹیفکیٹ سے لیکر فیس تک ادا کرتے ہیں اور اس کے بعد محکمہ تعلیم کی بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ پر رجسٹریشن کا عمل پورا ہو تا ہے جبکہ ہائی لیول کے لیے بورڈ سے منسلک ہونے کے لیے ان کی شرائط پر پورا اترنا پڑتا ہے پھر بھی پرائیویٹ اداروں کے ساتھ سوتیلا پن کرنا حکومت کو زیب نہیں دیتا ہے۔ ہاں وہ ادارے جو رجسٹرڈ نہیں ان کے خلاف کاروائی کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف چل رہے ہیں۔
رہا سوال فیس کا تو یہاں ایک بات کلئیرہے کہ جتنے بھی بڑے پرائیویٹ سکولز ہیں اور جن کی فیس ہزاروں میں ہے ان میں زیادہ تر سکولز سیاسی لوگوں کی ملکیت ہیں یا ان کا شئیرز ہے۔اسی لیے جب بھی کوئی برا وقت آتا ہے توان سکولز کو کوئی نہیں پوچھتا جبکہ عام آدمی کے سکولز پر فوری ایکشن آجاتا ہے۔ایسے سکولز گرمیوں کی تعطیلات میں بھی چلتے رہتے ہیں اور فیس بھی وصول کرتے ہیں مگردرمیانی طبقے کے سکولز مالکان نہ اپنے سکول میں سمر کیمپ لگا سکتے ہیں اور نہ ہی دو ماہ کی فیس وصول کرسکتے ہیں۔
اگر پرائیویٹ سکولز کی فیس کا مسئلہ اتنا اہم ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ جو پرائیویٹ کالجز اور یونیورسٹیاں بنی ہوئی ہیںجن کی فیس ایک سمسٹر کی لاکھوں میں بنتی ہے ان کو کیوں نہیں کوئی پوچھتا؟ کیا وہ غریب شخص جواپنے بچے کی سکول فیس ادا کرنے کے لیے پریشان ہوتا ہے جب اس کی اولاد کالج یا یونیورسٹی تک پہنچتی ہے تو کیا وہ اتنا امیر ہوجاتا ہے کہ اپنے بچے کی فیس لاکھوں میں ادا کرسکے؟ ان کالج اور یونیورسٹیوں کی فیس کے متعلق آواز کیوں نہیں اٹھتی ؟حقیقت یہ ہے کہ کالج اور یونیورسٹی کوئی عام بندہ نہیں بنا سکتا یہ ادارے صرف امیر لوگ ہی بنا سکتے ہیں۔اس لیے ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں اور سکولز غریب طبقے کابندہ بھی بنا سکتا ہے اس لیے اسکو تنگ کرنے کے لیے ہرکوئی تیار ہے۔
اب سکول کونسل کے نام پر پرائیویٹ سکولزکو تنگ کیا جارہا ہے۔کئی ماہ سے جمع سکولز کی ری نیو رجسٹریشن کی فائلزپر سی او ز کام نہیں کررہے اور تو اور پیف کے ماتحت چلنے والے سکولوں کو نئے داخلے نہیںکرنے دیے۔ پیف سکولز کے داخلے نہ ملنے پر سکولز کا گراف نیچے گرنا شروع گیا ہے ۔جس طرح پیف اور پرائیویٹ سکولز کے ساتھ حکومت کارویہ ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت تمام پرائیویٹ سکولز کو بند کرکے ایک بار گورنمنٹ سکولز میں داخلے کا شوق پورا کرلے اس طرح حکومت کو بھی گورنمنٹ سکولز کی کارکردگی کاپتا چل جائے گا اور یہ بھی معلو ہوجائے گا کہ والدین اپنے بچوں کو کس سکول میں پڑھانا پسند کرتے ہیں؟کیا کوئی سیاستدان یا بیوروکریٹ تک قسم کھا کر بتاسکتے ہیں کہ ان کی اولاد نے ہمیشہ گورنمنٹ سکولز میں تعلیم حاصل کی یا کررہے ہیں؟
پاکستان کی ترقی کے لیے ہر ایک کو اپنا اپنا کردار اداکرنا ہے تو اس لیے حاکم وقت چاہیے کہ اپنے مشیروں کی نہیں بلکہ وقت ضرورت کو دیکھتے ہوئے نہ صرف پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی اہمیت کو مانے بلکہ پیف کے کردار مدنظر رکھتے ہوئے ان کے نہ صرف داخلے فوری کھولے جائیں تاکہ تعلیم کے میدان میں جو بچے پیچھے رہ گئے وہ داخل ہوسکیں اور پیف سکولز کے بقایا جات ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی فیس میں بھی اضافہ کیا جائے جوکہ پچھلے کئی سالوں سے نہیں کیا گیا۔ 550روپے میں اتنی شاندار اور معیاری تعلیم پیف ہی اپنے پارٹنرزسکولوں سے دلوا سکتا ہے۔ وزیراعظم،وفاقی وزیر تعلیم، وزیراعلیٰ پنجاب اورصوبائی وزیر تعلیم کو چاہیے کہ وہ پیف سکولوں کا بازو بنیںجو پرائیویٹ اور گورنمنٹ دونوںسکولز سے کم فیس میں اعلیٰ کوالٹی کی مراعات اورشاندار کیو اے ٹی رزلٹ دے رہے ہیں۔
اگر ہمیں پاکستان کو تعلیم کے میدان میں آگے لیکر جانا ہے تو پھر بجائے اس کے کہ گورنمنٹ اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچیں بلکہ ایک دوسرے کا ساتھ دیکر اپنے ملک کی ترقی میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔تعلیم کے میدان میں حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور اپنے بچوں کو فی الفور سکول میں داخل کرائیں تاکہ ہمارا مستقبل روشن بن سکے۔ پاکستان تعلیم کے میدان میں اپنا کردار ادا کر سکے۔