تھریر: ڈاکٹر ایم اے قیصر وطنِ عزیز پاکستان کے گورنمنٹ تعلیمی اداروں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، زیادہ تر سرکاری تعلیمی ادارے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ خستہ حال عمارت، نامکمل چار دیواری، ٹوٹا پھوٹا فرنیچر، پینے کے پانی کا فقدان، انتہائی گندے اور بیماریوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ٹائیلٹس عدم توجیہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں بیشتر اساتذہ اکرام تمام مراعات لینے کے باوجود اپنی ذمہ داریاں ٹھیک سے نہیں نبھاتے۔ اور جن سرکاری تعلیمی اداروں کا تعلیمی معیار بہتر ہے، ان کا میرٹ آسمان کو چھو رہا ہوتا ہے، ان میں داخلہ لینا مائونٹ ایورسٹ سَر کرنے سے کم نہیں ۔صرف A+ گریڈ حاصل کرنے والے سٹوڈنٹس ہی داخلہ لینے کی اہلیت رکھتے ہیں بلکہ بعض اداروں میں تو A+گریڈ حاصل کرنے والے سٹوڈنٹس میں سے بھی صرف ٹاپ لِسٹڈ سٹوڈنٹس کو ہی داخلہ مل پاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان اداروں کی کامیابی اور بہتر تعلیمی معیار کا راز بھی یہی ہے کہ ان میں صرف ہونہار اور محنتی سٹوڈنٹس کو ہی داخلہ مل پاتا ہے، ورنہ اساتذہ کی محنت سے والدین اور سٹوڈنٹس اچھی طرح واقف ہیں۔
پنجابی کا اکھان ہے ”گھوڑے اپنیاں شرماں نوں دوڑدے نیں”۔ یہی وجہ ہے کہ سٹوڈنٹس کو اپنی سابقہ تعلیمی پوزیشن برقرار رکھنے کے لئے مجبوراً پرائیویٹ اکیڈمیوں کا رخ کرنا پڑنا ہے۔ سٹوڈنٹس کی تعلیمی بنیاد پرائمری کلاسز میں رکھی جاتی ہے، بنیاد جتنی مضبوط ہو عمارت اتنی ہی پائیدار ہوتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم سب کا اعتماد پرائمری کلاسز میں گورنمنٹ اداروں پہ نہ ہونے کے برابر ہے حتیٰ کہ ایک مزدور جس کی ماہانہ اجرت بہت کم ہے، معاشی حالت اس قدر پست ہے کہ ایک وقت کا کھانا کھایا تو دوسرے وقت کا نصیب ہو گا کہ نہیں، اُمید نہیں، اُس کی بھی یہی کوشش ہو تی ہے کہ کم از کم پرائمری کلاسز تک میرا بچہ کسی پرائیویٹ سکول میں پڑھ لے تاکہ اس کی تعلیمی بنیاد اچھی بن جائے۔ ہمارے معاشرے میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا کیا مقام ہے اور کیا اہمیت ہے اِس بات سے اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے۔
حکومتی پالیسیوں سے صرف گورنمنٹ تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم سٹوڈنٹس ہی مستفید ہوتے ہیںجبکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم سٹوڈنٹس اس سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ وظیفہ ہو یا مفت کتابیں، زکوٰة فنڈ سے مالی امداد ہو یا بورڈ کی فری رجسٹریشن و امتحانی داخلہ فیس کی معافی، حقدار صرف اور صرف گورنمنٹ تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم سٹوڈنٹس ہی ہوتے ہیں، نجی تعلیمی اداروں کے سٹوڈنٹس کیوں نہیں؟ کیا وہ ہمارے بچے نہیں ہیں ؟ کیا وہ پاکستان کا مستقبل نہیں ہیں؟ کیا وہ اس ریاست کے باشندے نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو ان کے ساتھ ریاست کا سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں؟ جب ایک ہی تعلیمی بورڈ کے تحت، ایک ہی امتحان میں، ایک ہی سنٹر میں، ایک ہی کمرہ میں، ایک پرائیویٹ سکول کا سٹوڈنٹ اور ایک گورنمنٹ سکول کا سٹوڈنٹ، ایک جیسے پیپرزحل کرنے کے بعد ایک جتنے ہی مارکس حاصل کرلیتے ہیں تو وظیفہ کا حقدار صرف گورنمنٹ ادارے سے تعلیم یافتہ سٹوڈنٹ ہی کیوں، دونوں کیوں نہیں؟ ذرا سوچئے! یہ دوہرا معیارِ تعلیم ہمیں کس طرف لے جائے گا؟
Security Army Public School
گزشتہ سال سانحہ پشاور پیش آنے کے بعد تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کے حوالے سے کچھ اقدامات اٹھائے گئے، اونچی چار دیواری، خاردار تار، سکیورٹی گارڈز کی تعیناتی اور سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب وغیرہ، تو ان کا پاپند پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو بھی کیا گیا اور ساتھ یہ آرڈر بھی کیا گیا کہ وہ سکیورٹی کی مد میں نہ تو کوئی فنڈ وصول کر سکتے ہیں اور نہ ہی سکیورٹی کے نام پہ فیسوں میں اضافہ کر سکتے ہیں جبکہ اس کے برعکس گورنمنٹ تعلیمی اداروں کو سالانہ فنڈ زکے علاوہ اربوں روپوں کا اضافی فنڈ سکیورٹی کے نام پہ جاری کیا گیا۔ اس سال ایسا ہی ایک فیصلہ لاہور ہائیکورٹ نے کیا ہے کہ نجی تعلیمی ادارے گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس یکمشت نہیں لے سکتے اور ساتھ ہی حکومت کو بھی ہدایت کر دی کہ وہ میڈیا پہ تشہیر بھی کرے اور اس عدالتی فیصلے پر عمل درآمد بھی کروائے۔ جبکہ تمام گورنمنٹ تعلیمی ادارے مئی میں ہی چار ماہ کی فیس یکمشت وصول کر چکے ہیں۔
میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی قدر کرتا ہوں لیکن میرے خیال میں یہ فیصلہ یک طرفہ ہے جس کی وجہ سے نجی تعلیمی اداروں کے سربراہان میں تشویش کی لہر دور گئی ہے اور وہ پریشان ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کی کسی تنظیم کو فریق بننا چاہئے اور عدالت میں اپنا موقف پیش کرنا چاہئے اور اس کے بعد عدالت کا فیصلہ جو بھی ہو، انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہو گا۔ تین ماہ کی فیس یکمشت وصول کرنا نجی تعلیمی اداروں کی مجبوری ہے، کیونکہ چھٹیاں تو ہوتی ہیں مگر عمارتوں کے کرائے، سٹاف کی تنخواہیں، ٹیلی فون، انٹرنیٹ، بجلی اور سوئی گیس کے بل تو ادار ے نے ادا کرنے ہی ہوتے ہیں۔
Expenditure
اس کے علاوہ عمارت کی مرمت و آرائش جیسے دیگر اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کے سربراہان کا کہنا ہے کہ اگر والدین ہر ماہ باقاعدگی سے آ کر فیس جمع کروا دیں تو بھی کام چل جائے لیکن ایسا ہو نہیں سکتا۔ چھٹیوں کے علاوہ باقی مہینوں میں بھی جب تک والدین کو بار بار یاد دہانی نہیں کروائی جاتی تب تک وہ فیس جمع نہیں کرواتے، چھٹیوں میں تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا تو کیسے کروائیں گے؟ اگر ہماری عوام اپنے واجبات کی ادائیگی بروقت خود ہی کرنے کی عادی ہو تو ہمارے حکومتی اداروں کو یوٹیلٹی بلز کی آخری تاریخ کے بعد ادائیگی کی صورت میں جرمانہ عائد کرنے کی ضرورت نہ ہواور نہ ہی بل کی ادائیگی نہ کرنے پہ کنیکشن منقطع کرنے کی نوبت آئے۔ اس لئے نجی تعلیمی اداروں کی مجبوری ہے کہ وہ چھٹیوں کی فیس ایڈوانس وصول کریں۔ ایڈوانس فیس صرف نجی تعلیمی ادارے ہی وصول نہیں کرتے بلکہ تمام گورنمنٹ کالجز اور یونیورسٹیاں بھی ایڈوانس فیس وصول کرتی ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کو اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور حکومت کو بھی اپنی تمام پالیسیاں، خواہ وہ سکیورٹی سے متعلقہ ہوں، فیسیوں سے متعلقہ ہوں، گورنمنٹ اور نجی تعلیمی اداروں کے سٹوڈنٹس کے لئے یکساں ہونی چاہئے۔ نجی تعلیمی اداروں کے سٹوڈنٹس کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہئے۔ فری کتابیں، فری بورڈ رجسٹریشن و امتحانی داخلہ فیس، بیت المال سے مالی امداد اور وظائف تمام سٹوڈنٹس کے لئے یکساں اصولوں پہ ہونی چاہئے، چاہے وہ گورنمنٹ تعلیمی ادارے کے سٹوڈنٹ ہوں یا نجی تعلیمی ادارے کے طالب علم۔ اگر حکومت ایسا نہیں کر سکتی تو پرائیویٹ سکولوں کی رجسٹریشن کرنا بند کر دے یا نجی تعلیمی اداروں کے سٹوڈنٹس پہ یہ پابندی عائد کر دے کہ وہ تعلیمی بورڈز کے تحت امتحانات میں شامل ہونے کے اہل نہیں تاکہ کچھ تو فرق ہو جس بنا پہ یہ کہا جا سکے کہ یہ حکومت سے فری کتابیں، بیت المال سے مالی امداد اور وظائف کے حقدار نہیں ہیں۔ اگر کچھ فرق نہیں ہے تو ان بچوں سے ایک جیسا سلوک کریں۔ یہ بھی ہمارے ہی بچے ہیں، یہ بھی پاکستان کا مستقبل ہیں، یہ بھی اس ریاست کے باشندے ہیں۔ خدارا! ان سے سوتیلی ماں جیسا سلوک مت کریں۔