چند دن پہلے میں نے ایک کالم میں لکھا تھا ”کرونا ہائی الرٹ ” جس میں میرے میرے دوست کی بیوی شدید بخار کھانسی پھیپھڑوں کی شدید انفیکشن کے بعد موت کے دھانے پر پہنچ گئی تھی میرا دوست مدد مدد پکار رہا تھا میں مشکل میں ہوں کوئی چارہ گر مسیحا ہے تو میری مدد کرے میری بیوی مر رہی ہے میرا گھر اجڑ رہا ہے میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں والدین فوت ہو گئے ہیں گھر میں اکیلا میں ہی ہوں اور کوئی دیور جیٹھ بھی نہیں ہے تھوڑی تھوڑی دیر بعد بیگم کا سانس اکھڑنا شروع ہو جاتا تو وہ مدد طلب نظروں سے خاوند کو دیکھنے لگتی اور بار بار ایک ہی فقرہ مجھے سانس نہیں آرہی ‘ مجھے بچا لو میری مدد کرو تو خاوند بیوی دونوں مل کر رونا شروع کر دیتے ‘ ظالم پرائیوٹ ہسپتال مریضہ کو اپنے ہسپتال میں پرائیویٹ کمرے میں داخل کر کے پہلے تو خوب لوٹ مار کر تا رہا جب دیکھا مریضہ کی حالت بہت خطر ناک بلکہ مرض الموت کا شکار ہو رہی ہے تو بلا وجہ یہ کہہ کر کہ ہم نے سارے ہسپتال کو جراثیم سے پاک صاف کر نا ہے۔
ہم سارے مریضوں کو ڈسچارج کر رہے ہیں پھر ڈسچارج سلپ ہاتھ میں دے کر مریضہ کو ہسپتا ل سے نکال دیا ظالموں بھیڑیوں جب تک لوٹ مار کا بازار گرم رہا تم لوٹتے رہے جب دیکھا مریضہ کی حالت خطرناک حد تک کرونا میں مبتلا ہو گئی ہے تو بے حس درندوں کی طرح ڈسچارج کر کے مریضہ کو ہسپتال سے نکال دیا مریضہ کے پھیپھڑے بری طرح متاثر بلکہ اسی فیصد ختم ہو گئے تھے اِسی وجہ سے سانس لینے میں شدید شکایت کا سامنہ تھا سانس ہی زندگی ہے اگر کسی کا سانس ہی رک جائے تو چاروں طرف موت رقص کر تی نظر آتی ہے مریضہ تو موت کی چاپ سن ہی رہی تھی اُس کی بگڑتی حالت دیکھ کر خاوند بھی بے بسی بے کسی لاچارگی دکھ پریشانی غم کے سمندر میں غرق ہاتھ پائوں مارتا مدد مدد پکارتا ہو امجھے فون کر تا ہے تو میں اپنے جاننے والوں کو فون کر تا ہوں اِس دوران بیچارہ خاوند بیگم کو لے کر ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال چکر کاٹنا شروع کر دیتا ہے دوتین ہسپتالوں نے جب مریضہ کی کھانسی ماسک بخار دیکھا تو مین گیٹ ہی بند کر دیا کہ یہاں پر کھانسی بخار کے مریضوں کا داخلہ بند ہے تو بیچارے نے مجھے دعا کے لیے فون کیا ساتھ ہی یہ بھی درخواست کی کہ آپ کے پاس بہت سارے لوگ ملنے آتے ہیں اگر آپ کا کوئی جاننے والا کسی ہسپتال میں ہے تو سفارش کر دیں۔
مریضہ کو اگر داخل نہ کرایا تو یہ رات نہیں نکالے گی میں شہر کی سڑکوں پر ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال کے درمیان داخلے کی بھیک مانگتا رہوں گا اور یہ بیچاری سڑک پر ہی دم توڑ دے گی میں نے عام سا کیس سمجھ کر دو چار دوستوں کو فون کیا کہ پیسے دے کر مریضہ کو داخل کرانا ہے یہ کونسا مشکل کام ہے لیکن چند کالوں کے بعد ہی مجھے بھی حالات کی نزاکت سنگینی کا احساس ہوا کہ لاہور کے سارے پرائیویٹ ہسپتال کرونا کے مریضوں سے بھر چکے ہیں کسی بھی ہسپتال میں ایک بھی بیڈ خالی نہیں ہے دو چار کالوں کے بعد انکار کے ردعمل سے مجھے احساس ہو گیا کہ کام بہت سنگین ہو گیا ہے اب میں بھی ایک دوست کے ساتھ نکلا اور ہسپتالوں کے دھکے اور منتیں شروع کر دیں آخر کار خدا خدا کر کے بہت بڑی سفارش اور رشوت کے بعد جا کر کہیں شہرکے مشہور مہنگے ترین ہسپتال میں داخلہ مل گیا داخلہ ملنے کے بعد مریضہ اور اس کا خاوند ہم اِس طرح خوش تھے جیسے کے ٹو سر کر لیا ہو میں نے اور خاوند بیچارے نے سکھ کا سانس لیا کہ کسی ہسپتال نے ہمارے لیے دروازہ توکھولا داخلے کے چند دن بعد خاوند کی مجھے کال آئی کہ مریضہ بہتر ہو رہی ہے لیکن پیسہ پانی کی طرح اجڑ رہا ہے جتنی سیونگ تھی ساری اڑ گئی اب دوستوں یاروں سے پیسے پکڑ کر لگا رہا ہوں۔
ایک طرف بیگم کی زندگی تھی دوسری طرف بہت زیادہ روپیہ چاہیے تھا پرائیوٹ ہسپتال والے روزانہ پیسے مانگ رہے تھے اگر پیسے نہ جمع کرائیں تو مریضہ کو کوئی پو چھتا تک نہیں مریض کی سانسوں کی ڈوری قائم رہے اِس کے لواحقین بے دریغ پیسہ خر چ کر تے ہیں اگر پیسے کی سپلائی میں تھوڑی سستی دیری یا کمی ہو جائے تو زندگی کا دھاگہ ٹوٹنا شروع ہو جاتا ہے اپنے پیاروں کی زندگی کا دھا گہ جڑا رہے لواحقین بھکاریوں کی طرح در در بھیک مانگ کہ اِن بد معاش سلاٹر ھائوسسز پرائیوٹ ہسپتالوں کے خرچے اٹھاتے ہیں دس دن بعد دوست کا فون آیا کہ بیگم کی حالت پہلے سے بہتر ہے تو میں اُس کو گھر لے آیا ہوں اب وہ کا فی بہتر ہے تو میں نے کہا بھائی جان اتنی مشکل سے تو داخلہ ملا تھا اُس کو ابھی مزید ہسپتال میں رہنے دینا تھا تو بیچارہ بولا جناب میری معاشی حالت مزید ہسپتال کو افورڈ نہیں کر سکتی تو میں حیران ہو کر بولا کیازیادہ اخراجات ہو رہے تھے تو وہ بولا جناب نارمل انجیکشن ڈرپ لگا کر وہ روزانہ صرف ہسپتال میں رکھنے کے ایک لاکھ روپے روزانہ کے وصول کر رہے تھے۔
اگر آپ کا مریض وینٹی لیٹر پر چلا گیا تو یہ خرچہ ڈیڑھ لاکھ روزانہ بھی ہو سکتا ہے اتنا زیادہ خرچہ کر نے کے باوجود آپ کی مریض تک پہنچ نہیں ہے آپ ہسپتال میں مریض کو جمع کرا کے گھر واپس آجاتے ہیں پھر آپ مریض سے مل نہیں سکتے کو ئی ڈاکٹر آپ کی کال نہیں اٹھا تا تا کہ وہ آپ کو تسلی بھی نہ دے سکے جو نمبرز ہسپتال والے دیتے ہیں ان پر آپ لگاتار کالز کر تے ہیں لیکن کو ئی نہیں اٹھا تا جب آپ تنگ آکر انکوائری پر رابطہ کر تے ہیں تو کہا جاتا ہے آپ کا مریض بہتر ہے ضرورت ہوئی تو آپ کو بتا دیا جائے گا اگر آپ ذرا سختی سے بات کریں تو کہاجاتا ہے آپ کو داخل کیا ہے یہ ہمارا احسان ہے اگر آپ مطمئن نہیں ہیں تو مریض کو لے جائیں ہمارے پاس تو سینکڑوں مریضوں کی لائن لگی ہوئی ہے جو داخلے کے خواہشمند ہیں بندہ مجبور ہو کر کدھر جائے مزید پیسے جمع کروا کر واپس آجاتا ہے دس دن ہسپتال کا خرچہ تقریبا دس لاکھ بنا میرے پاس تین لاکھ روپے گھر میں موجود تھے باقی رشتہ داروں دوستوں سے پکڑ کر علاج کرایا۔
اب اگلے کئی سال تک یہ قرضہ جو بیگم کی بیماری کا چڑھ گیا ہے اِ س کو اتارنے میں لگ جائیں گے سر آپ صرف یہ دعا کریں کہ موجودہ حالات میں کو ئی ہسپتال نہ جائے یہ ذبح خانے ہیں جہاں پر بھیڑیے جلاد عوام کا اور ان کے پیسے کا سر عام قتل عام کر رہے ہیں کو ئی اِن کو پوچھنے والا نہیں ہے یہ شتر بے مہار اونٹ کی طرح ہیں ان کو کوئی پو چھ نہیں سکتا اِن کی کو ئی گرفت نہیں کر رہا ان کو کسی کا خوف نہیں ہے یہ کروڑوں روپے کا بوجھ روزانہ عوام کی جیبوں پر ڈال رہے ہیں کو ئی ان بے رحم ظالم جلاد ڈاکوئوں کو روکنے والا نہیں ہے یہ بے دردی سے بے بس مجبور عوام کی کھالیں اتار رہے ہیں گورنمنٹ نام کی نہیں اِس ملک میں پھر اُس مظلوم نے ہسپتال اور گورنمنٹ اہل اقتدار کو بد دعا ئیں گالیاں دینا شروع کر دیں پھر اُس نے روتے بلکتے آہیں بھرتے ہو ئے فون بند کر دیا آجکل وطن عزیز کے چپے چپے پر ایسے لاوارث پریشان لوگ اپنے مریضوں کو پیاروں کو اُن کی زندگیاں بچانے کے لیے سڑکوں پر دن رات دھکے کھاتے نظر آتے ہیں۔
اِن پرائیویٹ ہسپتالوں کا طریقہ واردات بہت ظالمانہ ‘ وحشیانہ ‘ کا فرانہ ‘ بھیڑیوں والا ہے بے حسی اِس لیول کی ہے کہ آپ جب بھی اِن سے بات کریں کہ کرونا یا کھانسی کا مریض داخل کرانا ہے تویہ آسمان پر چڑھ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ تو ناممکن کام ہے اِس طرح یہ طوائف کی طرح اپنا بھائو اوپر کر تے ہیں کھانسی اور کرونا کی دہشت لواحقین بیچارے پہلے ہی چاروں طرف موت کو رقص کر تے دیکھ رہے ہو تے ہیں اوپر سے میڈیا کی روز خوفناک رپورٹیں کہانیاں تو بیچارے لواحقین کہتے ہیں جتنے مرضی پیسے لے لو ایک بارہمارا مریض ہسپتال کے اندر کر لو اُس کو داخلہ دے دو جب یہ پرائیویٹ بھیڑئیے احسان عظیم کرتے ہو ئے اس کو داخلہ دیتے ہیں تو بیچارے لواحقین احسان تلے دب کر گردن جھکا کر اُس بکرے کی طرح کھڑے ہو جاتے ہیں جس کو قصائی نے ذبح کر نا ہو تا ہے پھر اِن پرائیویٹ ہسپتال والوں کی لو ٹ مار کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اگر مریض بچ بھی جائے تو لواحقین اگلے کئی سال اِ ن کی لوٹ مار کے پیسے اتارتے اتارتے بوڑھے ہو جاتے ہیں لوٹ مار کا ایسا ظالمانہ بد معاشی والا طریقہ ہے کہ مریض اور لواحقین اف تک نہیں کر سکتے اگر کوئی دبے لفظوں شکوہ کر دے تو اپنا مریض کہیں اور لے جائو ہمارے پاس پہلے ہی جگہ نہیں ہے۔
اِن ظالموں کو خوف خدا نہیں ہے کہ کل کو اِن پر بھی بڑھاپے نے حملہ کرنا ہے اِن کا وقت بھی پو را ہو ا اِن کے بوڑھے جسموں نے بھی بیماریوں کی آما جگاہ بننا ہے اور پھر منوں مٹی تلے اِن کے جسموں کو پھینک کر لوگوں نے گھروں کو چلے جانا ہے پھر قبر کی تاریکی اور زہریلے کیڑے مکوڑے ہونگے جوا ن کے نازک جسموں کو ادھیڑ کر قیمہ بنا کر مٹی میں ملا دیں گے اِن کی ہڈیوں کا بھی چورہ بنے گا ا ن کی قبروں پر بھی سناٹے اور گمنامی کی گرد پڑے گی جہاں پر چمگادڑوں جنگلی جانوروں کے بسیرے ہو نگے جلتا سورج ہو گا اور یہ بے جان لاوارث لاشوں کی صورت میں ہونگے اُس وقت سے ڈر کر مظلوم عوام پر رحم کریں بھیڑئیے بن کر عوام کو نہ نوچیں۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org