تحریر : منظور احمد فریدی اللہ جل شانہ کی لا محدود حمد وثناء اور بارگاہ رسالت میں درودوسلام کے کروڑہا نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم نے اپنے علاقہ میں پرائیویٹ سکولز کے بڑھتے ہوئے رجحان سے ان کا تفصیلی جائزہ لیا اور جو اس کا ما حاصل ہے اسے ایک ترتیب سے زیر نظر مضمون میں بیان کیا ہے امید ہے میرے قارئین اسے پسند بھی فرمائینگے اور میٹھی کڑوی آراء سے بھی نوازیں گے۔
کسی بھی ریاست میں رہتے ہوئے ریاست کے باشندوں کو جن بنیادی سہولیات کا قانونی اور اخلاقی حق ریاست دیتی ہے اس میں امن روزگار تعلیم اور صحت سب سے اہم ہیں اور ریاست اگر اسلامی ہو تو حکمرانوں کے ذمہ داری میں یہ ضروریات پہلے آتی ہیں امت مسلمہ کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں ان ضروریات کے لیے موثر اقدامات کیے تاریخ کے عظیم جرنیل اور امت مسلمہ کے خادم جناب عمر فاروق نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ دریائے نیل کے کنارے اگر بکری کا ایک بچہ بھی بھوکا مر گیا تو اس کا حساب عمر نے دینا ہے مملکت خداداد وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان جسے اب اسلامی لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے اور جمہوریت کا حسن تو میری کلاس کی عوام خوب جانتی ہے اس ریاست کے حصول کے وقت کلمہ طیبہ کو بنیاد بنا کر برصغیر کے مسلمانوں کو وہ معاشرہ دکھایا گیا جو آقا کریم رحمت عالم نور مجسم جناب محمد مصطفیۖ نے ہجرت مدینہ کے وقت تشکیل دیا مگر افسوس کے اس کی باگ ڈور شروع سے ہی ایک ایسے گروہ کے ہاتھ آئی جو دین کے علم کو مذاق اور دین دار لوگوں کو پاگل سمجھتا رہا نتیجہ یہ نکلا کہ یہود وہنود کی اندھی تقلید کرنے والا معاشرہ پیدا ہو گیا جو لغویات انہوں نے ترک کر دیں۔
ہمارے معاشرہ میں لوگ اسے اپناتے چلے گئے انہوں نے ان سے تنگ آکر ہمارے اکابرین کا طریقہ اپنانا شروع کردیا اور ہم اس دلدل میں ایسے پھنسے کہ اب ادھر کے رہے نہ ادھر کے آج یورپ کا حکمران تو تعلیم اور صحت کو باشندوں کی بنیادی ضرورت اور حق سمجھتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ دونوں شعبہ ہائے زندگی ایک بہترین منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرچکے ہیں ۔بلکہ میں یہ برملا کہوں گا کہ آج بلیک منی کو وائٹ کرنے والوں نے بھی انہی شعبوں کا رخ کر لیا ہے جس کی مثال پنجاب کے مشہور پرائیویٹ ہسپتال اور سکول ہیں کسی بھی بڑے ہسپتال یا سکول کے مالک کا کھرا نکالنے پر آپ کو یہ بات واضح ہو جائیگی کہ اس نے اپنے پیسے کے بل بوتے اساتذہ اور ڈاکٹرز کو ملازم رکھا ہوا ہے اور خود اتنا تعلیم یافتہ بھی نہیں کہ خود کاروبار کو سنبھال سکے حکومت کی ناقص حکمت عملی سے ان شعبوں میں اصلاحات کے بجائے انکی بربادی کا باعث بنی اور حق داروں تک حق پہنچنے سے پہلے کرپٹ عناصر کا رزق بن گیا جس کی مثال پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے سکول ہیں حکومت نے یہ منصوبہ ان علاقوں کے لیے شروع کیا جہاں سرکاری سکول نہیں ہیں مگر پرائیویٹ سکول ایک مافیا کی شکل اختیار کرچکا ہے جس نے پیف ( PEF ) کے سکول بھی اپنے نام کروا لیے اور اپنی کمائی کو تقسیم کرنے کے بجائے ضرب کا قاعدہ شروع کردیا اساتذہ کی تنخواہیں اور بچوں کے نام پر ملنے والے فنڈز کے ساتھ ساتھ عوام سے فیسوں کا وصول کرنا بھی فرض اولین سمجھا جس سے یہ ٹولہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا چیک اینڈ بیلنس کا درست نظام نہ ہونے سے عوام اس اقدام سے بھی محروم رہی۔
میرے علاقہ میں ایسے کئی سکول موجود ہیں جن کو پیف سپورٹ کرتا ہے مگر نہ ان میں بچے بلا فیس پڑھتے ہیں اور نہ ہی ایسے اساتذہ مقرر ہیں جو واقعی بچوں کو انکی نفسیات کے مطابق تعلیم دے سکیں بلکہ کئی سکول مالکان نے ڈاکٹرز کے بورڈ لگوانے کی طرح کوالیفائیڈ اساتذہ کی ڈگریوں پر سکول منظور کروا کر انہیں آن کال رکھا ہوا ہے اور پڑھانے کے لیے عملہ خاص دو ہزار تین ہزار ماہانہ پر بچوں کو پڑھا رہا ہے ان لوگوں کی ہوس شائد دوزخ کی آگ ہی ٹھنڈی کرس کے کیونکہ انسانیت سے پیار تو معاشرہ میں انہیں کسی نے سکھایا ہی نہیں اور رہا حکمران طبقہ اسے سڑکیں بنانے پل بنانے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے فرصت ہوگی تب وہ قوم کی تعمیر کرینگے اور قوموں کی تعمیر کا ویژن رکھنے والوں کو اس ریاست میں دیوانہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اسکے ویژن میں قوم کی تعمیر ہوتی ہے جسکا نہ تو ٹینڈر ہوتا ہے اور نہ کمیشن ملتا ہے بلکہ اس نصاب کی اشاعت کے لیے خون دل جلانا پڑتا ہے جو کہ شائد ہمارے لیڈروں کے پاس ہے ہی نہیں خدا را اس بھولی قوم پر رحم کریں تا کہ کل اللہ کے حضور آپ جب رحم کے طلبگار ہوں تو اللہ بھی آپ پر رحم کرے یاد رکھیں وہاں سفارش رشوت یا اقرباء پروری نہ چلے گی اور عوام کے ہاتھ گن لو اپنے گریبان کی برداشت دیکھ لو کیونکہ اس دن ہی تو حسن جمہوریت ہوگا جب ایک عام آدمی کو بھی اپنے حکمران کا گریبان پکڑنے کا حق دیا جائے گا والسلام اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔