پاکستان کو آزاد ہوئے 70 سال ہو چکے ہیں اور ان سات دہائیوں سے یہی سنا اور پڑھا جا رہا ہے کہ ملک میں لارڈ میکالے کا نظام تعلیم رائج ہے یعنی اس نے باقاعدہ ایک سازش کے تحت ایسا ایجوکیشن سسٹم ہمیں دیا جس میں محب وطن’ حمیت پسند پاکستانی نہیں بلکہ انگریزوں کے غلام ہی پیدا ہوں اور نسل در نسل یہ سلسلہ چلتا رہااورہنوز جاری ہے۔ لارڈ میکالے کی پلاننگ کامیاب رہی اور آج 71 واں جشن آزادی منانے کے باوجود ہماری تعلیم انگریزوں کی ہی مرہون منت ہے۔ انگریزوں نے ایسی منصوبہ بندی کی کہ ہم غلام ابن غلام ہی ہیں اور اردو ہماری قومی زبان آج بھی اپنی منزل کی تلاش میں بھٹک رہی ہے تو دوسری جانب انگریزی زبان ہماری رگ رگ میں بس چکی ہے۔ اگر ہم انگلش میں بات نہیں کریں گے’ ہمارا بچہ کسی اعلیٰ انگلش میڈیم سکول میں پڑھے گا نہیں تو ہم دقیانوسی’ جاہل’ اجڈ’ گنوار اور زمانے کے ساتھ ترقی نہ کرنے والے کہلائے گے۔
اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود دوہرے تعلیمی نظام سے نکل نہیں پائے۔ تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور قوم تعلیم یافتہ ہو گی تو وہ سماجی و سیاسی اور اقتصادی طور پر بھی خود کو دنیا بھر میں منوا سکے گی۔ افسوس بحیثیت قوم ہم پاکستانی نہیں بن سکے۔ اور نہ ہی خالص اور سچا پاکستانی بنانے کی اپنے بچوں کو کوشش کرتے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی سسٹم بھی دو حصوں سرکاری اور پرائیویٹ میں بٹا ہوا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم کی ناگفتہ بہ حالت ہے والدین کی اکثریت اس قدر مایوس ہو چکی ہے کہ آج ایک دیہاڑی دار مزدور دن بھر مشقت کرکے پیٹ کاٹ کر بھی اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکول میں پڑھانے پر مجبور ہے۔ صرف اس لئے کہ اس کا بچہ بھی انگریزی میڈیم میں پڑھ کر اعلیٰ افسر بن سکے۔ وگرنہ اردو بالخصوص سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی زیادہ سے زیادہ کسی سرکاری ادارے میں کلرک کا عہدہ اس کے حصہ میں آئے گا۔ وہ الگ بات ہے کہ آج کسی سرکاری ادارے میں خاکروب کی نوکری کے لئے بھی لاکھوں روپے رشوت دینے کا چلن عام ہو چکا ہے۔ (بہرحال یہ الگ بحث ہے) پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں روزبروز بڑھتی ہوئی فیسوں اور دیگر اخراجات نے ایسے والدین کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے جن کی اوپر کی کمائی کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں وہ اپنی ماہانہ لگی بندھی تنخواہ سے ہی فیسیں ادا کرتے ہیں۔
حالانکہ چیف جسٹس آف پاکستان بارہا عدالتی حکم جاری کر چکے ہیں نجی تعلیمی ادارے بار بار فیسیں بڑھانے سے باز رہے اور اخراجات اس حد تک مناسب رکھیں کہ غریب بچہ بھی یہاں باآسانی داخلہ لے سکے لیکن اعلیٰ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی ہوشربا فیسوں سمیت دیگر روزمرہ کے اخراجات عام والدین کی دسترس سے باہر ہیں۔ ہر والد کا خواب ہے کہ وہ اپنے بچے کو شہر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھائے لیکن وہ ان سکول کے بڑھتے ہوئے معیار و بڑھتے اخراجات کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
ہر گلی ہر محلے میں کھمبیوں کی طرح اگے ہوئے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان سکولوں کے لئے کوئی ضابطہ و قانون ہی لاگو نہیں کیا گیا۔ مڈل پاس ٹیچرز کے ہاتھوں میں ہمارا مستقبل ہے۔ ان دو مرلے کے مکانوں میں قائم سکولوں میں کھیلنے کے میدانوں کی عدم دستیابی سے بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما نہیں ہو سکتی۔
اگرچہ ہر نئی حکومت اقتدار سنبھالتے ہی تعلیمی انقلاب لانے کا دعویٰ کرتی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی ”پڑھا لکھا پنجاب” کا نعرہ لگایا دانش سکول قائم کئے لیکن نتیجہ صفر۔ کوئی ایسی مستقل پالیسی نہ بنائی جا سکی جس سے تعلیمی حالت میں سنوار پیدا ہو۔ نئی پی ٹی آئی حکومت نے بھی تعلیمی اصلاحات کے بلند و بانگ دعوے کر رکھے ہیں۔ دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
بڑے اعلیٰ انگلش میڈیم سکولوں میں نصاب بھی اپنا ہی پڑھایا جاتا ہے جو حکومت سے منظور شدہ نہیں ہوتا۔ ایک سروے کے مطابق ان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایسی تعلیم دی جا رہی ہے جس سے نئی نسل میں نظریہ پاکستان سے روشناس کروانے کے بجائے قیام پاکستان کے مقاصد سے ہی ہٹایا جا رہا ہے۔ اسلام اور مشرقی اقدار و روایات کے خلاف ان کی ذہنی آبیاری کی جا رہی ہے۔ جس کی واضح مثال مخلوط تعلیمی ادارے ہیں۔ لڑکا’ لڑکی کا کھلم کھلا اختلاط کو اسلام میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن ایسے اعلیٰ انگلش میڈیم سکولوں کا خاصہ ہی یہی ہے کہ یہاں پر اسلامی تعلیمات کے منافی ہر قسم کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ لاہور میں بڑے تعلیمی اداروں میں بیکن ہاؤس سکول سسٹم’ انٹرنیشنل سکول سسٹم’ دی لاہور سکول سسٹم نمایاں ہیں۔
بیکن ہاؤس سکول کی پرائمری جماعت کو پڑھائے جانے والے سوشل سٹڈیز کی کتاب میں گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا۔ اس پر کافی بحث ہوئی تعلیمی ادارے کے سربراہ کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا مگر سکول کے محب وطن استاد کی آواز پر کسی نے کان نہیں دھرا ۔جس نے ملک دشمن اقدام کی نشاندہی کی اور احتجاجاً استعفیٰ دے دیا کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے کے مصداق نظریہ پاکستان و حب الوطنی پر زندہ رہنے والے اعلیٰ اداروں اور شخصیات میں سے کسی نے بھی اس کے خلاف باقاعدہ تحریک نہیں چلائی۔ اس معاملے کو خاموشی کے ساتھ دبا دیا گیا۔ بیکن ہاؤس سکول کے مالکان کا تعلق پاکستان کے حکمران خاندان سے ہے خورشید قصوری اعلیٰ پائے کے سیاستدان ہیں اور کئی حکومتوں کے مزے لوٹ چکے ہیں۔ خورشید قصوری وہی اعلیٰ شخصیت ہیں جو قومی اسمبلی میں شریعت بل منظور ہونے کے خلاف مستعفیٰ ہو گئے تھے۔ اس سے پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ملک میں کس ایجنڈے پر عملدرآمد میں مصروف ہیں ۔
بیکن ہاؤس سکول سسٹم کے مالکان پاکستان میں امریکی گیز اینڈ ابٹینس ان فارن افیئرز انجینئر (جی ایل آئی ایف اے اے) کے سر کردہ ارکان میں سے ہیں اور انہیں ملک میں اسلام مخالف نظریا ت پھیلانے کے لئے باقاعدہ عالمی بنک سے فنڈنگ کی جاتی رہی ہے۔
یہاں آزادی مادر پدر کے نام پر مشرقی تہذیب’ ہماری اقدار کی سرعام دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ جیساکہ یہاں کی زیر تعلیم طالبات نے اپنے خون آلودہ سینٹری پیڈز اور زیر جاموں کو تعلیمی ادارے کی دیواروں پر چسپاں کرکے اپنی آزادی کا اظہار کیا اور نعرہ لگایا کہ ”مرد کنڈوم کھلم کھلا خرید سکتے ہیں تو ہم پیڈز کیوں نہیں”
کونسے ایسے باعزت پاکستانی والدین ہوں گے جو ایسے مغربی زدہ تعلیمی مخلوط اداروں میں اپنے لڑکیوں حتیٰ کہ لڑکوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجیں گے۔ صرف یہی یہ نہیں سیکس کی تعلیم دیکر اسلامی تعلیمات کا بھی تمسخر اڑایا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے سکول انتظامیہ و مالکان کو اسلامی تعلیمات’ ہماری مشرقی روایات و اقدار کا مذاق اڑانے کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس کو اس جانب توجہ دینی چاہئے۔ ایسے تمام سکولز مالکان کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے جو فحاشی و عریانی پھیلانے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
امریکی ہم جنس پرست سفیر کیمرون منٹر سے قصوری خاندان سے گہرے مراسم ہیں۔ واضح رہے کہ اسلام آباد میں خورشید قصوری کی بہن کی سربراہی میں پہلی بار ہم جنس پرستوں کا جشن منایا گیا تھا۔ جس میں غیر ملکی سفارتکاروں’ امریکی نمائندوں سمیت 75 افراد نے شرکت کی تھی۔ جب معاملہ چار دیواری سے باہر نکلا تو مصلحتاً فوزیہ قصوری نے فحش اقدام پر پردہ ڈالنے کے لئے خاموشی اختیار کر لی تھی۔ لیکن خفیہ طور پر ہم جنس پرستی پھیلانے کے مشن پر کاربند رہیں اور اپنے سکول میں ہی ہم جنس پرستوں کا ایک اجتماع کر ڈالا۔ جس پر طالب علموں کے والدین سراپا احتجاج بن گئے۔ معاملہ قومی اسمبلی تک جا پہنچا تھا اور کئی میڈیا اینکرز بھی گواہی دینے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے روبرو پیش ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں ساری تحقیقات کا ریکارڈ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اور پریس اینڈ میڈیا کے ناقابل تبدیل و تردید ریکارڈ پر موجود ہے۔ ان کے سکولوں کی کتابوں سے کشمیر کے علاقے ہی غائب ہی نہیں کئے گئے رمضان المبارک میں بھی مخلوط ڈانس پارٹیوں کا انعقاد معمول ہے یعنی کھلے عام ضابطہ اخلاق’ اسلامی قوانین اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی آئین کے احکامات کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور ان سے بازپرس کرنے کی کسی میں جرات نہیں۔ کوئی تو ہو جس کا جذبہ ایمانی جاگ رہاہو اور وہ ان اسلام و ملک دشمنوں کو اپنے بیرونی آقاؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے مکروہ عزائم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہو۔