تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے موجودہ تمام سیاسی پارٹیوں پر عدم اعتماد کرکے انھیں الف ننگا کر ڈالا ہے اس نے یہ امر بھی واضح اور ثابت کردیا ہے کہ سبھی نام نہاد بڑی پارٹیوں کے لیڈران کرام ایک ہی حمام میں اکٹھے بغیر کپڑوں کے نہا رہے ہیں اور عوام کی کمزوری کی وجہ سے مزے لوٹ رہے ہیں۔ مقابلے میں کوئی مؤثر جماعت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ناز نخرے قابل دید ہیں لیگیں تو صرف ظالم جاگیرداروں، نودولتیے سرمایہ داروں، عیاش وڈیروں اور سود خور صنعتکاروں کے اکٹھ کا ہی نام رہا ہے۔ مگر اب انصافین بھی اس کریہہ دوڑ میں پیچھے نہیں رہے انھوں نے اِدھر اُدھر سے پکڑ دھکڑ کرکے مذکورہ لالچیوں کواپنے چنگل میں سمیٹ لیا ہے۔
انھیں یہ تاثر دیا ہے کہ اب اقتداری ہڈی ہماری جھولی میں آگرے گی اس طر ح عمرانی نعرے اور وعدے صرف فریب محض بن چکے ہیں اگر ایک اکیلا فردوہ مولوی ہی کیوں نہ ہوچکلے میں اکیلا چلا جائے تو کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا ہونے کی طرح وہاں سے پلید در پلید ہو کر ہی نکلے گااور ایسے ہی لالچی مفاد و اقتدار پرستوںنے قائد اعظم کی مسلم لیگ کا بھی تیا پانچہ کر ڈالا تھاآج کے نام نہاد راہنمایان کس باغ کی مولی ہیں اب جب کہ یہ طے شدہ امر ہے کہ نواز اور عمران آئندہ منتخب ہوکر نہیں آسکتے جس کا بین ثبوت موجودہ بلدیاتی انتخابات ہیں کہ آزاد امیدواروں کے کل ووٹ سیاسی پارٹیوں کو ملنے والے ووٹوں کی نسبت دگنااورکہیں تگنا تعداد میں ہیںان کا بوریا بسترجو کہ ابھی سے گول ہو چکا ہے تو آئندہ غیر جانبدارانہ انتخابات میںانھیں الیکشن مہم چلانا ہی مشکل ہو گی انھیں ووٹ تو کیا ملیں گے۔
Municipal Elections
امیدوار تک ہی نہ مل سکیں گے کہ موجودہ انتخابات میں لوگوں نے ان کی ٹکٹوں پر الیکشن میں حصہ لینا بھی مناسب نہیں سمجھا کہ ان کا انتخابی نشان لے کر عوام کے پاس جائیں بھی تو کیوں کر؟ان سبھی کی کرتوتوں اور پیدا کردہ مسائل ،بیروزگاری ۔مہنگائی ،دہشت گردی ،خراب امن عامہ اوربجلی ،گیس ،صاف پانی کی عدم دستیابی کا کیا جواب دیں گے ویسے بھی جو کل تک دوسری پارٹی میں رہ کر بدمعاش یا کرپشن کنگ کا”عظیم”عہدہ پا چکا ہے اب وہی انصاف کے چرنوں میں گر کرکیوں کر منصف ہو کر پاک باز کہلا سکتا ہے۔
خرِعیسیٰ گربہ مکہ ر ود ۔چو ںبازآئیدہنوز خر باشد(عیسیٰ کا گدھا اگر مکہ چلا بھی جائے تو جب واپس آئے گا گدھا ہی رہے گا)پھر ایسے لوگ(صنعتکار وغیرہ)توسیاست کرتے ہی مال بنانے کے لیے ہیں پھر ڈر کس بات کا ہے؟مقتدر ہوتے ہی تو ان کی ملیں سال میں کئی بچے جنتی ہیں اور ان کی زمینیں بھی سونا اگلنا شروع کر دیتی ہیں کہ دنوں میں مزید ملوں کے مالک ہوکر بنک بھر جاتے ہیں ۔دنیا میں کہیں بھی صنعتکار حکمران نہیں ہوتے سوائے ہمارے ہاں کے۔دنیا کے غلیظ ترین نظام سود کے علمبرداران حکمران بن جائیں گے تو خدا کی رحمتیں زحمتوں میں بدل جائیں گی کہ یہ فیصلہ خداوندی ہے ان کا ماٹو تولُٹوتے پُھٹوہی ہے۔
اب چونکہ یہ سیاسی پارٹیاں اپنی سیاسی موت کے دن گن رہی ہیں اسی لیے سٹیل ملز واپڈا ،پی آئی اے و دیگر اہم ترین قومی ادارے اپنے ہی عزیز و اقارب کو بیچ کر مال بنانا ہی ان کا وطیرہ اور مطمع نظر رہ گیا ہے کہ “اندھا بانٹے ریوڑیاں پھر پھر کر اپنوں کو “دوسری طرف ان کے سارے عزیزو اقارب ، خونی رشتہ دار اور اولادیں تک ٹھیکہ دار بن کرتعمیراتی منصوبوں سے آدھے سے کچھ زائد مال ڈکار رہی ہیں کہ بابربہ عیش کوش کہ اقتدار دوبارہ نیست، سپریم کورٹ یا ہائی کورٹس تو صرف احکام ہی صادر کرسکتی ہیں۔
عملدرآمد تو صرف حکومتی طاقتور اداروں ،ان کی دم چھلہ پولیس اور کرپٹ لادین بیورو کریٹوں ہی نے کروانا ہوتا ہے وہ چونکہ ہمہ قسم کرپشنوں میں برابر کے حصہ دار ہیں اس لیے وہ چپ کا روزہ مسلسل رکھے ہوئے ہیں اور زمین جنبدآسمان جنبدنہ جنبدگل محمد کی طرح ہیں جو کچھ بھی ہوتا رہے وہ عدالت کے احکامات کوپرِکاہ جتنی بھی اہمیت نہیں دیتے اگر ایسا ہوتاتو سابقہ اور موجودہ سبھی مشیر وزیرجیلوں میں بیٹھے بان بُن رہے ہوتے اور مرغ مسلم کھانے کی بجائے دال پی رہے ہوتے۔کوئی چیخے چلائے بھی تو دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ ہماری تو بولتی بند کرڈالی گئی ہے ہمیں ملازمت اور اسطرح نان نفقہ اور حصہ بقدر جسہ ہی عزیز ہے عوام پر مِنی نہیں بلکہ مَنی بجٹ کے ذریعے مہنگائی کی قیامت صغریٰ برپاہوتی ہے تو ہوتی رہے،دراصل حکمرانوں کی احمقانہ پالیسیوں کی وجہ سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے سابقہ حکومتوں کی نسبت کئی گناہ زیادہ قرضے لے کر اللے تللوں پر خرچ کرڈالنے سے ہم غربت کی گہری کھائی میں ہی نہیں بلکہ قبر میں اتر رہے ہیں۔پہلے ہی یہ سود خور ادارے تین مسلمان ملکوں انڈونیشیا ،ارجنٹائن اور بولیویاکی معیشت کو نگل چکے ہیں۔
ان کے عوام کی طرح ہمارے لوگ بھی صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئے ہیں مگر چونکہ یہ ملک لاکھوں مائوں بہنوں نوجوانوں بزرگوں کی ان گنت قربانیوں سے معرض وجود میں آیا تھا اور اب سات دہائی سالوں بعد بھی چند وڈیرے و صنعتکار خاندان اس کو لوٹتے چلے جارہے ہیں ۔توآئندہ عام انتخابات میں ہر صورت خدائے عز و جل کی غیرت جوش میں آکران کو سیاسی قبروں میں دفنانے کا انتظام کرڈالے گی اور انکے سیاسی مقبرے بن کر رہیں گے کہ اللہ اکبر کی طاقت کے سامنے سبھی ہیچ ہیں اصلی خدائی کوڑے کی زد سے اس بار قطعاً نہیں بچ سکتے اور یہ فطری تقاضوں کے عین مطابق ہو گا ۔کہ خداوند قدوس اپنی پاک سرزمین کو اتنے طویل عرصہ تک راندہ ٔدرگا ہ لوگوں کی مسلسل چراگاہ بننے نہیں دے سکتے جس کی دنیا کی تاریخ گواہ ہے سابقہ ادوار کے فرعون ،نمرود ،شداداور موجودہ دور کے شہنشاہ ایران و دیگر ظالم ڈکٹیٹر آخر فنا ہو کر رہے بادشاہتیں ٹوٹ رہی ہیں اور اسلامی جمہوریتیں سر بلند ہو رہی ہیں کہ کسی کہ روکے نہ رکا ہے کبھی سویرا اور یہ کہ رات خواہ کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو۔
Poor People
اس کی کوکھ سے صبح ضرور جنم لیتی ہے جب غرباء اور پسے ہوئے طبقات کے لوگوں کے کپڑے تک اتار لیے جائیں گے ،بھوکی مائیں بمعہ بلکتے بچوں کے خود کشیاں کریں گی تو پھر یہ ننگ دھڑنگ افرادتنگ آمد بہ جنگ آمد کی طرح اٹھیں گے اور اپنی آخری سانسوں کی بحالی کے لے بذریعہ ووٹ ان سے بدلے چکائیں گے۔ غریبوں کے خون کو پٹرول کی جگہ ڈال کر چلنے والی پجارو اور لمبی لمبی مر سڈیز و لیمو زینوں پر چڑھے سرمایہ پرست لالچی افراد کیسے مقتدر رہ جائیں گے جبکہ زخمی ننگے پیروں پر چل کر غریب عوام ان سے ووٹ کی طاقت کے ذریعے اقتدار کی باگیں چھین لیں گے۔
ہر طرف اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے گلی کوچوں میں گونجیںگے اور وہ”گائے “جیسے ایسے نشان پرمہریں ثبت کرڈالیں گے۔جس کو زبح کرنے اور جس کا گوشت تک کھانے والوںکی ہندو بنیا قتل و غارت گری کر رہا ہے۔ تنگ و تاریک اورکیچڑ سے لتھڑی گلیوں ،غربت اور مہنگائی کے عفریت کے ڈسے ہوئے محلوں کوچوں سے اٹھنے والی اللہ اکبر کی تحریک فاتح بن کر ملک کے تما م مسائل حل کرے گی ۔بجلی ،گیس ،علاج، تعلیم ،انصاف ،صاف پانی اور اعلیٰ سیوریج سسٹم ہر در پر مفت پہنچے گاتو واقعی فلاحی انقلاب برپا ہو گا۔
محنت کش اور مزدور بھی ان حالات میںکم ازکم 50ہزار روپے ماہانہ معاوضہ پائیں گے۔نیز کھانے پینے کی تمام اشیاء پانچواں حصہ کم قیمت اور ہمہ قسم تیل تیسرا حصہ کم قیمت پر ملے گاتو ملک معاشی ،سیاسی ،خارجی امور میں انتہائی طاقتور ایٹمی قوت بن کر ابھرے گا جب کہ تمام بیرونی قرضے یکمشت اتر چکے ہوں گے اور آئندہ صرف قرض حسنہ کی صورت میں محیر العقول رقوم اللہ اکبر تحریک کی حکومت کو عالم اسلام اور وہاں کے مخیر حضرات فراہم کرکے دنیا کو ششدر کرڈالیں گے ۔178کرپشن کیسز سپریم کورٹ میں کھل چکے ہیں کچھ سیاسی راہنمابھاگ کر نہیں بلکہ چوہوںکی طرح دم دبا کر غیر ممالک میں پناہ گزین ہوچکے ہیں اور باقی بھاگنے کی تیاریوں میں مصروف مزید مال سمیٹ رہے ہیں اور عوام خدا کی رحمتوں کے طلبگار،انصاف ہوتا اور انھیں چوکوںپر الٹا لٹکا دیکھنے کے متمنی ہیں۔