نجکاری یا غداری

Pakistan Steel Mills

Pakistan Steel Mills

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
پرانے لوگ اپنی زمینیں نہیں بیچا کرتے تھے کہ وہ دھرتی ماں کو فروخت کر ڈالنا گناہ قرار دیتے تھے۔شاید اب دھرتی ماں نہیں رہی یا اولاد کو پیارے پاکستان سے وہ محبت نہیں رہی۔ سرکاری محکمہ جات، سرکاری املاک، اداروں صنعتوں کو تیزی سے حکمران نجکاری کے مرحلوں سے گزار رہے ہیں۔ سٹیل ملز کراچی کو جب بیچنے کا عمل جاری تھا تو سپریم کورٹ نے فوری مداخلت کی اور اس کی فروختگی کو روک دیا۔وگرنہ حکمران اسے بیچ کھاتے اسے جس قیمت پر فروخت کیا جارہا تھا صرف اس کی زمین کی قیمت ہی اس سے چار گنازیادہ تھی۔اور بھاری مشینری مفت بھاڑے میں دی جارہی تھی۔کوئی حکمران اندھا یا بہرا نہیں ہوتا۔اس کے حواری اور قریبی ساتھی ہی اسے ورغلاتے ہیں کہ فلاں ادارہ نجکاری کمیشن کے ذریعے بیچ ڈالیں۔ہمیں اتنا ڈھیروں سرمایہ وصول ہوگا۔تحریری معاہدے کے بعد بقیہ رقوم جھولی چک اٹھائی گیر ہی کھاتے اورغراتے ہیں۔

عملاً یہ بھی ہوتا ہے کہ ادارہ کو اپنے ہی عزیز و اقارب کو معمولی ریٹ پر بیچ دیا جاتا ہے اسطرح زیادہ رقوم الم غلم ہو جاتی ہیں۔حکمران اور ان کے حواری مال خود بناتے ہیں مگر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اداروں کی نجکاری مسلسل جاری ہے محکمہ پی ٹی سی ایل بیچاکسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی اونے پونے داموں اتصلات کمپنی سے بہت کم رقم ایڈوانس لے کر اسے زیادہ حصص فروخت کرکے قبضہ کرواڈالا۔شنید ہے کہ اربوں روپوں کے کک بیکس اس میں وصول کیے گئے متعلقہ وزیر بیوروکریٹوں نے اپنا اپنا حصہ بقدر جسہ وصول کیا۔نجکاری پر اس کی قیمت جو عملاً تحریر کی گئی یہ ادارہ اس سے بیسیوں گنا زیادہ قیمت کا تھاباقی اوپر والی رقوم ظاہر ہے کہ کمیشن اور رشوت کے لین دین میں ہی گم کردی گئیں۔

غالباً کسی ملک کی لیکس کمپنی میں جمع ہو کر کاروبار ہورہا ہو گا۔محکمہ ٹیلیفو ن کے پچاس فیصد سے زائد ملازمین رفتہ رفتہ نوکریوں سے فارغ کردیے جاچکے ہیں انھیں گولڈن ہینڈ شیک جیسے گھن چکر کا شکار ہو نا پڑا مگر انھیں جو رقوم پنشن کی بھی دی جانی تھی وہ بھی نہیں دی گئیں۔گولڈن ہینڈ شیک کی رقوم کا تو کیا سوال پیدا ہو گا۔ٹی این ٹی کی لیبر یونین بھی کچھ نہ کرسکی کہ اس کے کئی عہدیدار ہی ملازمتوں سے فارغ کرکے گن پوائنٹ پر دفتروں سے بھگا ڈالے گئے۔جب ان کو اپنی ہی پڑ گئی تو وہ دوسروں کی بھلائی کیا خاک کرتے ؟ملازمین کے آج تک کیمپ لگے ہوئے اور احتجاج جاری ہیں چونکہ انہوں نے دفاتر میں توڑ پھوڑ نہیں کی اسلئے انھیں کوئی گھاس تک کیا ڈالے گا۔

Privatization

Privatization

یہ وہ محکمہ تھاجس کے ادارہ سے فون لگواناجوئے شیرلانے کے مترادف ہوتا تھا۔کراچی لاہور جیسے بڑے شہروں میں تو مرکزی وزیر کی اجازت کے بغیرفون لگ ہی نہیں سکتا تھا اب حالت یہ ہے کہ سڑکوں پر سٹال لگا کر فون لگانے کے لیے منت سماجت کرتے محکمہ کے افراد بیٹھے ہیں اور کوئی منہ تک نہیں لگاتا۔محکمہ نے مختلف موبائل فون کمپنیوں کو کنکشن دے رکھے ہیںوہ کھربوں روپے کما کر بیرون ملک لے جارہے ہیں ۔یہ محکمہ پورے ملک سے ریوینیو اکٹھا کرتا تھا اور پورے ملک کے بجٹ کا نصف سے بھی زائد حصہ اسی سے پورا ہوتا تھا۔مگر آج حالت یہ ہے کہ لوگ پرانے لگے فون کنکشن ہی کٹوادیناچاہتے ہیں کہ وہ ماہانہ رینٹ دینا بھی بوجھ سمجھتے ہیں کہ جب جیب کے اندر ہی موبائل فون کی سروس موجود ہو تو پھر کسی ایک کمرہ میں موجود فکس فون کو کون استعمال کرے گا۔

محکمہ کی عمارتیں جو کہ اربوں کھربوں مالیت کی وسیع اراضی پر تعمیر شدہ آج کل بھوت بنگلہ بنی ہوئی موجود ہیں ۔وہ ساتھ ہی سودے میں بیچ ڈالی گئی تھیں۔نئے مالکان جب چاہیں گے انھیں فروخت کرکے اربوں کمائیں گے اور ہم ان کا کچھ بھی نہ بگاڑسکیں گے۔اگر ساری عمارت نہ بھی فروخت ہوئی تو بھی کئی دوکانیں پلازے اس کی فرنٹ کی جگہوں اوردوسری فالتو زمینوں پر بنا کرنئی کمپنی اربوں روپے کرایہ ہی وصول کرتی رہے گی۔سرکاری دفتروں کا کاروبار تو انھی پی ٹی سی ایل فونوں سے چلتا ہے ہماری ہمہ قسم سیکریسی لیک ہوتی ہے اور یہ کسی صورت بھی ملکی دفاعی تقاضوں کے منافی عمل ہے پتہ نہیں کس احمق نے اس کو بیچ ڈالنے کا مشورہ دیا تھا۔لازماً وہ ملک دشمن نہ ہوا تو محب وطن بھی ہرگز نہ ہو گا۔

عوام یہ بھی سمجھ رہی ہے کہ سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کا اس طرح ڈھیروں روپے جمع کرنے کا عمل آئندہ انتخابات کو خریدنے کے لیے ہورہا ہے کہ” اس بازار “کی طرح سیاسی طوائف یا باندی اسی کی ہو کر پیا من کو سدھار جائے گی جو زیادہ مال خرچ کرے گا اسی لیے تو مقتدر ہوں یا اپوزیشنی جماعتیں سبھی وڈیروں سود خور صنعتکاروں کو ہی اپنے ہاں جمع کیے جارہی ہیں۔تاکہ ہر ووٹر روپوں سے چھینا اور ورغلایاجا سکے اور اسطرح منتخب ہوکرملک پر ان کا قبضہ جاری رہے مگر اس دفعہ خدائے عز وجل ملک بننے پربچوں نوجوانوں بوڑھوں بیٹیوںکی اس دھرتی ماں کو حاصل کرنے کے لیے دی گئی قربانیوں کی بنا پراقتداری ہما کسی اور ہی کے سر پر بٹھا ڈالیں گے اور اللہ اکبر اللہ اکبر اور سیدی مرشدی یا نبی یا نبی کے نعرے لگاتے تحریک کی صورت نکل پڑنے والوںکو اس ایٹمی پاکستان کی حفاظت کاکام سونپ ڈالیں تو یہ کچھ بعید نہ ہو گا۔

Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری