تم کون ہوتے ہو ہمیں پوچھنے والے ہم پولیس والے ہیں تمہارے پاس کیا اختیار ہے کہ ہم سے پوچھو ۔بھائی میں اس کالونی میں رہتاہوں آپکے پاس جو موٹر سائیکل ہے یہ بھی بغیر نمبرکے ہے اور نہ ہی آپ کے پاس کوئی شناختی کارڈ ہے بتا یا نہ کہ ہم پولیس والے ہیں اور ہمیں پتہ چلا ہے کہ اس گھر کے اندر اشتہاری رہتاہے میں یہ سارا ماجرا دیکھ رہاتھا تو ساتھ ساتھ پولیس والوں کی بدمعاشی بھی کہ علاقہ کسی اور تھانہ کا ہے اور یہ سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس والے ایک مجرم کو ڈھونڈنے یہاں پر کیسے آئے وہ بھی علاقہ کے تھانہ کے SHOکو بتائے بغیر۔اسی بحث کے دوران ایک اور آدمی موٹر سائیکل پر آیا اور اترتے ہی گولڈ لیف کا پیکٹ اپنی جیب سے نکالتے ہوئے بولا کہ کیا مسئلہ ہے؟
مسئلہ توکوئی نہیں ہے ۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ کہ کیا پولیس والے سادہ کپڑوں میں آکر جس کے گھر میں گھس جائیں کوئی بھی محلہ دا رسوال نہیں کرسکتا کہ تم لوگ کون ہو؟ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ پولیس گردی ہر جگہ پر موجود ہے یہ لوگ ہماری جانوں اور عزتوں کی رکھوالی خاک کریں گے یہ تو خود چورہیں ان کو کسی نہ کسی کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے ARYپر مبشرلقمان صاحب نے اپنے پروگرام کھرا سچ میں لائیو ویڈیو دکھائی ہے کہ کس طرح نقلی پولیس مقابلے ہوتے ہیں اور جن لوگوں کو مارنا ہوتاہے انکو پولیس مقابلے میں مار دیا جاتا ہے۔
جس ملک کے وزیراعلی صاحب پر انگلیاں اٹھتی ہوں اس ملک کی عوام اپنی فریاد کس کے پاس لے کرجائیں ہماری نہ تو عدالتوں میں انصاف رہاہے ۔ عوام اس وقت جس طرح کی زندگی گزار رہی ہے وہ تو ایسے ہے کہ آدمی ریت کے صحرامیں کھڑاہو اور زورسے آندھی آجائے ہر طرف ریت ہی ریت اڑنے لگے تو آدمی یہ ہی سوچتاہے کہ اب وہ کیا کرے اورکہاں جائے؟
اس وقت ہمارے ملک میں ان پولیس والوں کو کوئی کنٹرول کرنے والا نہیں ہے یہ اس وقت ملک کے بادشاہ ہیں اور سب گلو بدمعاش ہیں واحد ہمارا ملک ہے جس کی پولیس ان پڑھ ہے سارے سفارشی بھرتی کیے جاتے ہیں اور کئی تو ایسے ہوتے ہیں جن کو تنخواہ نکلوانے کیلئے اپنا چیک بھی بھرنانہیں آتا جو شخص بنک سے اپنی تنخواہ نہیں نکال سکتا وہ ہماری حفاظت کیا خاک کرے گا ہم دوسرے ممالک کی پولیس دیکھتے ہیں تو ہمیں رشک آتاہے کہ کاش ہماری بھی پولیس ایسی ہو مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اس نظام کا حصہ ہیں آج دن تک کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے۔
Law
جو پولیس نے پیسے نہ لئے ہوں رشوت اور چور بازاری ہمارے معاشرے میں اس طرح پھیل چکی ہے جس کا کنٹرول کرنا اب نظر نہیں آتا کیونکہ قانون بنانے والے ہی قانون توڑتے ہیں۔ حال ہی میں ماڈل ٹائون لاہور میں جو واقع پیش آیا پولیس والوں نے کتنی بے دردی سے اپنی عوام پر ظلم کیا تمام ٹی وی چینلز پر لائیو دیکھا جارہا تھا جس طرح گلو بٹ اور پولیس نے ظلم کیا اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی پولیس والوں کو خود خدا کا خوف نہیں آیا کہ وہ کیا کررہے ہیں۔
نوجوانوں پر بزرگوں پر اور ساتھ ساتھ خواتین پر جس طرح ڈنڈے برسائے گئے کتنی زیادتی ہے ہمارا تو سر ہی شرم سے جھک گیا ہے دنیاوالوں نے جب دیکھا ہو گا تو کیا سوچتے ہوں گے پاکستان کے بارے میں ہمارے ملک میں کسی کو بھی عوام سے پیار نہیں ہے مسئلہ ہے تو صرف کرسی کا ہے۔
اس کرسی کی خاطر نہ جانے کتنے لوگ اپنی عوام کو بے دردی سے قتل کرواتے رہیں گے۔ پولیس والے بھی ہم سے ہیں مگر جب وہ وردی پہن لیتے ہیں تو ایک اچھا افسر بننے کی بجائے اپنے آپ کو بدمعاش سمجھتے ہیں اور جہاں بھی ان کا بس چلتاہے عوام پر ظلم کرتے ہیں ہماری تمام حکومت کے انچارجوں سے درخواست ہے کہ عوام پر ظلم بندکردو ورنہ ایک دن اللہ پاک کے ہاں جواب دینا ہو گا۔