تحریر : عبدالحنان طاہر بھارت کی آٹھ لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں بدترین ریاستی دہشت گردی کا ارتکاب کر رہی ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعدسے ڈیڑھ سو سے زائد افراد شہید کر دیے گئے’ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ پیلٹ گنوں سے زخمی ہونے والے سینکڑوں کشمیری اب تک اپنی بینائی کھوچکے ہیں۔ پندرہ ہزار سے زائد نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔کشمیری تاجروں کو اربوں روپے مالیت کا نقصان پہنچایا گیا۔ بھارتی فوج کی طرف سے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کا سلسلہ جاری اور چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا جارہا ہے۔غاصب بھارتی فوج نے کشمیر کو فوجی چھانی میں تبدیل کر رکھا ہے۔نہتے کشمیریوں کی نسل کشی کر کے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ ہمیں یواین کی قراردادوں کو بنیاد بنا کربین الاقوامی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنی چاہیے۔ ملک دشمن قوتیں پاکستان کو کسی صورت مضبوط و مستحکم نہیں دیکھنا چاہتیں۔
ملک بھر میں سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنے مسئلوں کو لیکر پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ ہوتی ہے لیکن پاکستان میں کوئی کشمیر کاز کے لئے اپنی اواز بلند نہیں کررہا اور میں سوچ میں گم تھا اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مختلف طریقے اور تدابیر سوچ رہا تھا کہ کسی طریقے یہ مسئلہ حل ہونا چاہئے جسکا میں کالم میں اوپر زکر کر آیا ہوں اور سوچ رہا تھا کہ کون ہے جو پاکستان سے اٹھے اور کہے کہ جیسے آج کشمیری کہ رہے ہیں ۔ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے ۔اور پاکستان سے یہ جوابی نعرہ بلند ہو کہ ہم کشمیری ہیں اور کشمیر ہمارا ہے ۔اور پھر مجھے کچھ ایسے نوجوان نظر آئے جو واقع کشمیر کی تحریک کو پاکستان کی ہر گلی ،کوچے تک پہنچارہے ہیں ۔ جن کا مقصد ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔
کشمیریوں کو انکا حق خودارادیت ملنا چایئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے لیکن پاکستان کی حکومتوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے اس موقف کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔اور حکومت پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ابھی تک کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا گیا ہے۔کشمیر کی ایک سٹوڈنٹس بہن نے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ پہلے ہمارے پردادہ لوگ نے لڑی ،پھر ہمارے دادا لوگ اس جنگ میں شہید ہوئے اور پھر ہمارے بابا نے یہ جنگ میں حصہ لیا اور بلا آخر وہ بھی شہید ہو گئے ،اور پھر ہمارے بھائی اس میدان میں کھڑے ہوئے اور ان کی بھی شہید کر دیا گیا ہے اور اب یہ جنگ ہم پر مسلط کردی گئی ہے۔ ہمارے کالج اور یونیورسٹٰیز میں انڈین آرمی طلباء اور طالبات کو بدترین تشدد کا نشانا بنا رہی ہے ۔اور جب ہم نے اپنے حق کے لئے پاکستان کے ساتھ الحاق کی آواز کو بلند کیا تو انڈین آرمی نے وومین یونیورسٹٰی پلوامہ میں فائرنگ کی اور شیلنگ کی جس سے ہماری بہنیں زخمی ہوئی ہیں ۔وہ بات کررہی تھی کہ ہمارے بارے میں انڈین میڈیا پراپگنڈا کررہا ہے کہ چند سٹوڈنٹس لڑکیاں جو انڈین آرمی کے مقابلے میں پتھرائو کررہی ہیں ۔ان کو خریدہ گیا ہے اور اسی سٹوڈنٹس کی آواز لڑکھڑانے لگی اور سسکیوں میں تبدیل ہوگئی کہ بلا چند پیسوں کے لئے کون اپنی جان کا سودا کرتا ہے ۔اور پاکستان کے لئے وہ سٹوڈنٹس پیغام دے رہی تھی کہ پاکستان سے کوئی نہیں جو ہماری مدد کے لئے آئے اور آواز بلند کرے اگر کوئی یہ نہیں کرسکتا تو ہمارے ہاتھ میں گن تھما دو ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں۔
ہمارے لئے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ؟اور میں سوچ میں تھا کہ یہ وہ ہماری بہن ہے جس کو اپنے پردادہ سے لیکر اپنے اوپر جنگ مسلط ہونے کا سب لمحات کا پتہ ہے ۔اور یہ جنگ پاکستان کے ساتھ الحاق کی ہے جسے وہ اپنے اوپر فرض اوقرض سمجھ کر لڑتے اور نبھاتے ہوئے آرہے ہیں ۔ اور آج وہ نے اپنے مستقبل کو دائو پر لگا کر جنگ میں شریک ہوگئے ہیں ۔اور ایک طرف پاکستان میں رہنے والے طلباء ہے جن کو صرف اپنے مستقبل کی فکر ہے ۔اور وہ کیرئیر کو بچانے کے لئے ان تمام معاملوں سے دور ہے ۔اس سٹوڈنٹس کو کوئی فکر نہیں کہ ہمارے قائد نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ہے ۔کیا وجہ ہے ؟اور پھر مجھے ایسی طلباء تنظم نظر آئی جنہوں نے واقع مسئلہ کشمیر پر غور فکر کیا ہے ۔اور کشمیری طلباء طلبات کے ساتھ پاکستان میں رہتے ہوئے اظہار یکجہتی کررہے ہیں ۔ اس تنظیم کا نام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔المحمدیہ سٹوڈنٹس کے نام یہ طلباء تنظیم پاکستان میں جانی اور پہچانی جاتی ہے ۔مجھے رمضان المبارک میں لاہور کے اندر انکے افطار پروگرام میں دعوت دی گئی ۔جب وہاں پہنچے تو مختلف پوسٹر ز اور فلیکس پر لکھا گیا تھا ۔ایک افطار کشمیر کے نام بظاہر مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا ان کا بنیادی مقصد کیا ہے اور آہستہ آہستہ مہمانوں کا سلسلہ شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی مختلف طلباء تنظیموں کے مرکزی رہنمائوں سے حال بھر گیا ۔اور میرے زہن میں اٹھنے والے سوالات مجھے واپس لینے پڑرہے تھے کہ کچھ نا کچھ تو ہے جو آج یہ تمام طلباء تنظمیں کالج اور یونیورسٹٰیز میں کسی نہ کسی مسئلہ پر لڑائی جھگڑے تک چلی جاتی ہیں۔۔اور دوسری طلباء تنظیم کو ایک آنکھ بھی نہیں باتی ہیں ۔وہ آج ایک پرسکون طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے تھے۔
افطاری ہوئی اور اس کے بعد مسئلہ کشمیر پر تحریک آزادی جموں کشمیر کے کوارڈینیٹر تھے انہوں مسئلہ کشمیر پر بریفننگ شروع کی اور کشمیری طلباء طلبات جو اس تحریک کو اگے لیکر چل رہے ہیں۔اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔مجھے میرے سوالات کے جواب مل گئے تھے کہ یہ سٹوڈنٹس کس حد تک مسئلہ کشمیر پر غور وفکر کررہے ہیں ۔جس طرح کشمیری طلباء طلبات مقبوضہ کشمیر اپنی آزادی کی تحریک کو چلا رہے ہیں اسی طرح یہ المحمدیہ سٹوڈنٹس کے نوجوان ان طلباء کا دکھ لئے پاکستان میں اس تحریک کو ایک احسن اور خوبصورت طریقے سے چلا رہے ہیں ۔جن کی دعوت پر ملک بھر کی مختلف طلباء تنظیمں ایک جگہ پر اکٹھی ہوئی ۔اور مسئلہ کشمیر پر اپنا اپنا کردار ادا کرنے لئے انہوں نے مختلف پہلوئوں پر بات کی ۔متحدہ طلباء اور دیگر طلباء تنظیموں کی طرف سے برہان وانی کی شہادت کو ایک سال ہونے پر 08جولائی سے 13جولائی تک ہفتہ یکجہتی کشمیر منانے کا علان کیا گیا ۔پروگرام کے آخر میں تمام تنظیموں کے صدور نے کشمیری طلباء طلبات سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اپنا ویڈیو پیغام ریکارڈ کروایا تاکہ کشمیری طلباء اور طلبات کو ایک حوصلہ اور ہمت مل سکے کہ تم اس ازادی کے سفر میں تنہا نہیں ہو بلکہ پاکستان کی تمام طلباء تنطیمیں اپنے کشمیری کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔
وہاں پر تم نے تحریک آزادی کشمیر کو چلانا ہے اور پاکستان میں ہم چلائیں گئے ۔اور حکومت پر دبائو بڑھائیں گئے کہ مسلہ کشمیر حکو مت سنجیدگی سے کام لیتے ہوئے اقوام عالم میں اس مسئلہ کو اٹھائے پروگرام کے بعد المحمدیہ سٹوڈنٹس پاکستان کے صدر محمد راشد علی ملاقات ہوئی اور ان سے مسئلہ کشمیر پر گفتگو کا ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے رمضان المبارک کے اندر ملک بھر میں ایک افطار کشمیر کے نام سے مہم چلائی ۔اور پاکستان بھر میں سٹوڈنٹس تک یہ پیغام پہنچایا کہ اپنی سحری و افطاری میں اپنے کشمیری طلباء طلبات کو یاد رکھیں جنہوں نے پاکستان کی سالمیت کی جنگ لڑتے ہوئے اپنے مستقبل کی پروا کیے بغیر امتحانات کا بائیکاٹ کیا اور دنیا کو بتایا کہ ہم بھارت کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ۔ہمارا جینا اور مرنا پاکستان کے لئے ہے۔اس وقت ملک میںاتحادویکجہتی کاماحول پید اکرنے کی ضرورت ہے۔کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والا ملک پاکستان قیامت تک ان شائاللہ قائم رہے گا۔ لیکن ہمارے حکمران مسلسل دبائو کا شکار ہیں۔ دشمنان اسلام کا ایجنڈا ہے کہ مسلمانوںمیں فکری انتشار پیدا کیا جائے’ انہیں آپس میں لڑا یا جائے اور طبقات کی کشمکش کا سلسلہ بڑھایا جائے تاکہ مسلمانوں کی وحدت اور یکجہتی کا خاتمہ ہو اور وہ متحد ہو کر سوچ نہ سکیں۔اللہ کے دشمن مسلمانوں پر جنگیں مسلط کر کے مسلم معاشروں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ہمیں بیرونی سازشوں کے خاتمہ کیلئے وہ افراد اور معاشرے تیار کرنا ہیں جو عمل و کردار میں پختہ ہوں۔