انقرہ (جیوڈیسک) صدر رجب طیب ایردوان کا کہنا ہے کہ آرمینیوں کی زبردستی نقل مکانی نہ تو نسل کشی اور نا ہی عظیم سطح کی آفت کے زمرے میں آتی ہے۔
صدر و آق پارٹی کے رہنما جناب ایردوان نے انقرہ کی تحصیل کزل جا حمام میں منعقدہ 28 ویں مشاورتی و جائزاتی اجلاس سےخطاب میں کہا کہ آرمینیوں کی جبری نقل مکانی ایک صدی پیشتر کافی کٹھن حالات میں بلقان جنگ کے دوران پیش آنے والا ایک دردناک واقع ہے، جیسا کہ دعوی کیا گیا ہے اگر” ہم آرمینیوں کے خلاف غیر انسانی فعل کے مرتکب ہوتے تو آج یورپ سے لیکر امریکہ تک، شمالی افریقہ سے قفقاز تک کے وسیع جغرافیہ میں مقیم لاکھوں ، کروڑوں آرمینی آباد نہ ہوتے۔”
انہوں نے کہا کہ ان باتوں کو زیر بحث لانے کے مقامات پارلیمان نہیں بلکہ قدیم ریکارڈز اور ان کی جانچ پڑتال کے اہل ماہرین ہیں، ہمارے ریکارڈز مسئلہ آرمینیا کے معاملے پر ہر کس کے لیے کھلے ہیں، ہم نے ان کو مدعو کیا لیکن کوئی نہیں آیا، کیونکہ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ریکارڈز میں کونسے حقائق درج ہیں۔ اگر ان کا مقصد حقائق سے جانکاری ہے تو ہمارے ریکارڈز کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔ اس کے علاوہ کے ہر قسم کے پیغام کو ہم مسترد کرتے ہیں۔ آرمینیوں کی ملک بدری ہر گز نسل کشی یا پھر عظیم آفت نہیں ہے۔ یہ محض ایک دردناک واقع ہے۔ فرانسیسی صدر کو بھی ان حقائق کو سمجھ لینا چاہیے۔اس ملک میں 7 لاکھ آرمینی نژاد شہری آباد ہیں تو یہ پیغام دینا تمھیں نجات نہیں دلائے گا۔
ترکی کے روس سے خریدے گئے ایس۔ 400 میزائل نظام کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ سنجیدہ سطح کا نظریاتی اختلاف پائے جانے کا ذکر کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ “چاہے کوئی کچھ بھی کیوں نہ کہے ہمارے لیے اصل اہمیت کی حامل چیز ہمارے وطن کا مستقبل ہے، ہم شام کو دہشت گردی کی دلدل سے نجات دلانے کے حوالے سے اقدامات اٹھانے اور فی الفور ایس ۔400 اور اس طرح کی سیکورٹی تدابیر لینے کے عمل کو جاری رکھیں گے۔
انہوں نے گولان پہاڑیوں کے حوالے سے کہا کہ یہ علاقہ اسرائیل کا نہیں بلکہ شام کا ہے جس پر سن 1947 سے اسرائیل قابض ہے۔ یہ ملک قابض کاروائیوں کی طاقت امریکہ سے پا رہا ہے۔ اسی کی بدولت یہ اپنی ان کارستانیوں پر عمل پیرا ہے۔
صدر ایردوان نے ترکی کی یورپی یونین کی رکنیت کے حوالے سے اس بات کی یاد دہانی کرائی کہ انقرہ نے اس سے متعلقہ تمام تر کسوٹیوں کو پورا کر دیا ہے، یورپی یونین نے اپنی غیر متوازن پالیسیوں، غیر اصولی مؤقف پر پردہ ڈالنے کے لیے ترکی کو مورد الزام ٹہرانے کی راہ اپنا رکھی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اگر یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا ہے یا ختم کرنا ہے تو اس معاملے میں قدم اٹھانے والے یورپی ہی ہیں۔ اگر آپ ترکی کو ناپسند کرتے ہیں تو آئیے اس موضوع کر ٹھپ کر دیتے ہیں۔