کراچی(جیوڈیسک)کراچی محمد رفیق مانگٹ برطانوی اخبارفنانشل ٹائمز سے انٹرویو میں نواز شریف کا کہنا ہے کہ اگر انہیں انتخابات میں کامیابی ملی تو وہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خاتمے کے لئے فوج اور طالبان سمیت تمام فریقوں سے بات چیت کریں گے۔بندق اور گولی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
طالبان سے مذاکرات سے قبل تمام جمہوری سیاسی جماعتوں سے اس سلسلے میں بھرپورمشاورت کی جائے گی۔ اخبار لکھتا ہے کہ امریکا اور کابل کی طرف سے افغان طالبان کے ساتھ مفاہمتی عمل کی طرز پر نواز شریف کا پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوشش بعض سینئر فوجی افسران کی طرف سے ایک مخالفانہ ردعمل کا سبب بن سکتی ہے۔
اخبار کے مطابق نواز شریف کہتے ہیں کہ 1999میں میرے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی ذمہ فوج نہیں،ملک کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی ذمہ دار بھی فوج نہیں۔فوجی بغاوت کا فیصلہ ایک فرد مشرف کا تھا جس کا ساتھ دیگرتین لوگوں نے دیا۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ میں بطور ادارہ فوج کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا۔
اخبار کے مطابق ہفتے کے روز انتخابات میں نواز شریف کی جماعت کے بھاری اکثریت میں کامیابی کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔لیکن وہ اتحادیوں کے بغیر حکومت تشکیل نہیں دے پائیں گے۔ اخبار کے مطابق نواز شریف کی کامیابی کے بعد دوسری ترجیح ملکی معیشت کو بہتر کرنا ہے جس میں بجلی کا بحران،سست معاشی نمو، اور ادائیگیوں کے بحران کے توازن کا خطرہ شامل ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جماعت کے بارے خیال ہے کہ وہ حالیہ انتخابات میں سب سے زیادہ سیٹیں جیت لے گی۔نوازشریف پاکستان میں سب سے بڑی عفریت دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مسلح افواج اور طالبان عسکریت پسندوں سمیت تمام فریقین کے ساتھ فوری بات چیت کا راستہ کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
برطانوی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں انتخابات میں کامیابی ملی تو ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اور اس مسئلے کے حل کے تلاش کیلئے ہر شخص سے بات کریں گے اور اس کے ساتھ مل بیٹھیں گے ۔ہر مسئلے کا حل بندوقیں اور گولیاں نہیں ہوتی۔اخبار لکھتا ہے کہ1947سے ہی پاکستان میں سیاست متواتر تشدد، قتل اور فوجی بغاوتوں سے بھری پڑی ہے۔
لیکن مذہبی اقلیتوں اور سیکولر سیاست دانوں پر انتہا پسندوں کی طرف سے حالیہ بم اور گن حملوں سے سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے جس نے پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کی طرف سے ملک کے استحکام پر سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔اخبار کے مطابق پاکستانی طالبان نے آئین کو مسترد کردیا ہے اور جمہوریت کوغیر اسلامی اور سیکولر فورسز کا کام قرار دیتے ہوئے لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے منع کردیا ہے۔
بعض جماعتوں نے مزید تشدد کے خوف سے انتخابی مہم کوکم کردیا ہے۔نواز شریف کا کہنا ہے کہ ہمیں ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سامنا ہے،اس نے 40ہزار سے زائد افراد کی جان لے لی ۔ان کا کہنا ہے کہ ہمیں کراچی،بلوچستان ، قبائلی اور دیگر علاقوں میں مسائل کا سامنا ہے۔نواز شریف کا کہنا ہے کہ تمام متعلقہ فریقوں کو دہشت گردی ختم کرنے کے لئے مذاکرات میں شامل ہونے کی دعوت دی جائے گی۔
پاکستانی طالبان کے بارے پوچھے گئے سوال پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ چند ہفتے پہلے طالبان نے حکومت پاکستان کو بات چیت کی پیش کش کی اور کہا گیا کہ ہم بات چیت کیلئے تیار ہیں، نواز شریف کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں حکومت کوچاہیے تھا کہ وہ اس پیش کش کو سنجیدگی سے لیتی لیکن حکومت نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔
اخبار کے مطابق نواز شریف نے تجویز پیش کی کہ جمہوری سیاست دانوں کے سامنے یہ بحث رکھی جائے گی کہ کس طرح عسکریت پسندوں کے ساتھ بات کی جائے ،سب سے پہلے تو ہمیں خود آپس میں اس مسئلے پر بات کرنی چاہیے اورسیاستدانوں میں اس موضوع پر طالبان سے مذاکرات سے قبل بھرپور طریقے سے بحث ہوگی۔