مسئلہ طور خم بارڈر

Torkham Border

Torkham Border

تحریر : حنظلہ عماد
پاکستان کے شمال مغربی سرحد جسے ڈیورنڈ لائن بھی کہا جاتا ہے اس سرحد کے حوالے سے اگر ہم تاریخی طور پر جائزہ لیں تو پاکستان کو اس جانب سے کبھی خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ حتیٰ کہ روس اس خطے میں آگیا، بعد ازاں روس اس خطے سے رسوا ہوکر نکلا ، اس کے بعد یہ سرحد مزید محفوظ ہوگئی۔ گویا ایک بے فکری کا عالم تھا جس کی وجہ سے پاکستان کو اس سرحد کی کوئی خاص فکر کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے افغانستان جانے کے لیے یا افغانستان سے پاکستان آنے کے لیے ویزہ یا پاسپورٹ اور دیگر مطلوبہ کارروائی ایک فضول سرگرمی خیال کی جاتی تھی۔ لوگ بلادھڑک پاکستان سے افغانستان اور افغانستان سے پاکستان آتے تھے۔ بلکہ افغانستان کی ہونے والی تجارت کا زیادہ تر انحصار پاکستان پر ہی تھا۔

11ستمبر کے ہونے والے حملوں کے نتیجوں میں جب امریکہ بہادر اپنے ہمراہ37ممالک کی افواج لے کر آیا تو یہ اس خطے میں ایک بہت بڑی جنگ کا آغاز تھا۔ آج پندرہ سال گزرنے کے بعد اس جنگ کے حالات تو سب کے سامنے ہیں لیکن اس جنگ کے عقوبات میں کچھ وہ ہیں کہ جو پاکستان اور افغانستان کے لیے انتہائی ضرر رساں ثابت ہوئے ہیں۔ انھی میں سے ایک یہ مسئلہ قومیت کا اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اسلامی بھائی چارہ اس میں گم ہوگیا ہے۔ اقبال نے کہاتھا
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ملت کا وہ کفن ہے

طور خم بارڈر پر ہونے والی حالیہ کشیدگی پر اگر مختصراً نظر دوڑائی جائے تو معاملہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان ضرب عضب کے نتیجے میں اب تک3610کلومیٹر کا علاقہ دہشت گردوں سے خالی کرواچکا ہے اور اب افواج ان دہشت گردوں کے تعاقب میں افغان سرحد تک پہنچ گئیں ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی تھی کہ اب افغان حکومت کی طرف سے تعاون ہوتا کیونکہ آپریشن ضرب عضب شروع کرنے سے قبل ہی پاک فوج کی طرف سے افغان حکومت کو اعتماد میں لیا گیا تھا کہ آپریشن کے نتیجہ میں بہت سے دہشت گرد افغانستان بھاگ کر آسکتے ہیں۔ افغان حکومت کے ذمہ تھا کہ ان کو پکڑ کر پاکستان کے حوالے کرے۔ یہ سب کچھ طے ہوا تھا لیکن افغانستان نے اس پر عمل درآمد نہیں کیا۔

Taliban

Taliban

بلکہ الٹا تحریک طالبان پاکستان اور اسی طرح بلوچستان کے تخریب کاروں کی سرپرستی بھی افغان حکومت کی جانب سے کی جانے لگی۔ اب چونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان روزانہ ہزاروں لوگ سفر کرتے ہیں اور انھی مسافروں کے روپ میں دہشت گرد بھی آجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں کہ جب افغان حکومت بھی تعاون پر آمادہ نہ تھی تو پاکستان حکومت نے طے کرلیا کہ بارڈر مینجمنٹ کو فروغ دیا جائے گا۔ یعنی اس باہمی آمدورفت کی جانچ پڑتال کی جائے۔ پاکستان نے یہ فیصلہ کیا اور اس کے ساتھ ہی طور خم بارڈر پر گیٹ کی تعمیر شروع کردی گئی لیکن اس موقع پر افغان حکومت اور اداروں کی طرف سے بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ شروع کردیا گیا اور اس کی زد میں آکر میجر علی جواد شہید ہوگئے۔
اقبال نے کہا تھا کہ
کرائے پر منگالوں گا کوئی افغان سرحد سے

لیکن انھیں کیا خبر تھی کہ اسی افغان کو اب کرائے پر وہ دشمن بھی استعمال کرسکے گا کہ جس کے ساتھ مخاصمت ہی قیام پاکستان کا باعث بنی تھی۔ چنانچہ کسی کے اشاروں پر ہونے والی اس فائرنگ کا مقصد سراسر یہی تھا کہ بارڈر مینجمنٹ نہ ہونے دی جائے کیونکہ اس طرح دہشت گردی کو روک لگنے کا امکان تھا۔حالانکہ افغان حکومت اور عوام یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان نے کس طرح ہر آڑے وقت میں ان کا ساتھ دیا ہے بلکہ اس وقت بھی 30لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں قیام پذیر ہیں ۔جو یقینا پاکستان کی معیشت پر ایک بوجھ ہیں لیکن پاکستان خندہ پیشانی سے اب تک ان کی میزبانی کرتا آرہا ہے۔ یہ سلسلہ مزید بھی جاری رہ سکتا تھا لیکن حالیہ ان واقعات نے ایک نئی لہر کا آغاز کردیا ہے۔

ان واقعات کے بعد ہماری سرحد پر ہمیں اپنے ہی مسلمان بھائیوں سے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ اگرچہ افواج کے تقابل میں یہ خطرات کچھ معنی نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود ہر حال میں یہ خطرات ہیں۔ دوسری طرف افغانستان کے مہاجرین کے لیے پاکستان میں نفرت بڑھنے لگی ہے۔ پاکستان کی حکومت اور اداروں نے اگرچہ ابھی تک یہ پالیسی اپنائے رکھی ہے کہ افغانستان ہمارا برادر ملک ہے اور وہ غیروں کی باتوں میں آکر پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہ کرے لیکن پاکستان کی اس قدر نرمی اور صلح جو موقف کے باوجود افغانستان کی طرف سے ہونے والی پاکستان مخالف سرگرمیوں نے افغانیوں کے خلاف نفرت کو ہوا دے دی ہے۔

Pakistan

Pakistan

پاکستان کی عوام اب یہ چاہتی ہے کہ افغانیوں کو اب اپنے وطن واپس جانا چاہیے۔ افغانی بھی اس حوالے سے نہ صرف تذبذب کا شکار ہیں بلکہ عدم تحفظ کا احساس بھی بڑھ رہا ہے۔ راقم الحروف اس کا مشاہدہ کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں کرچکا ہے کہ جہاں افغان مہاجرین آباد ہیں۔ ان مہاجرین میں سے ایک بڑی تعداد اب اسلام اور لاالہ الاللہ کے رشتے کی بجائے اپنی قومیت کی بات کرتی ہے۔ افغانی ہونے پر فخر اور پاکستان کو افغانستان کے مسائل کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے۔ اس عدم اعتماد کی فضا نے دہشت گردوں اور تخریب کاروں کے لیے معاملات کو آسان کردیا ہے۔ یوں ان کے لیے کسی کو استعمال کرنا آسان ہوگیا ہے۔ وہ جو لاالہ الاللہ اور اسلامی بھائی چارے کی ایک فضا پاکستانیوں اور افغانیوں میں قائم تھی وہ اب مفقود ہے۔ یہ وہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی جنگ کے عقوبات ہیں کہ جو پاکستان کے لیے انتہائی ضرررساں ثابت ہورہے ہیں۔

اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ عالمی میڈیا اور پاکستان کے دشمن ممالک و ادارے پاکستان اور افغانستان کے مابین ہونے والی اس تلخی کو بہت بڑی کشیدگی کا روپ دینے کی کوشش کررہے ہیں اور ان کا مقصد ان دو ممالک کے درمیان حتی الامکان دشمنی پیدا کرنا ہے۔ایسے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سارے معاملات کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کیا جائے۔ بارڈر مینجمنٹ کی اگر بات کی جائے تو یہ صرف دشمن ممالک کے درمیان نہیں ہوتی بلکہ دوست ممالک کے درمیان بھی ہوتی ہے۔ مثلاً پاکستان کی چین کے ساتھ523کلومیٹر کی سرحد ہے اور دوستانہ تعلقات کے باوجود کوئی فرد کاغذات اور ضروری قانونی کارروائی کے بغیر بارڈر کراس نہیں کرتا۔ جبکہ بھارت سے ہماری بارڈر مینجمنٹ ایک الگ نوعیت کی ہے۔ اسی طرح افغانستان کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ بارڈر مینجمنٹ اب وقت کی ضرورت ہے اور اس میں پاکستان کے ساتھ افغانستان کے لیے بھی بے شمار فوائد ہیں۔ البتہ حالات متقاضی ہیں کہ معاملہ ٹھنڈے دل سے حل کیا جائے اور کابل انتظامیہ کو بھی اس پر غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ افغانستان کی تجارت اور اشیائے خورد ونوش و غلہ و اجناس کا زیادہ تر دارومدار پاکستان پر ہے۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی صورت میں اسے سنگین معاشی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ تیسری اور سب سے اہم بات وہ یہ کہ ہمارا افغانیوں سے لاالہ الاللہ کا رشتہ ہے اور یہ ہر ضرورت سے بڑھ کر ہے۔ یہ بات پاکستان اور افغانستان دونوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دشمن ہمارے درمیان دشمنی بڑھانا چاہتا ہے اور اس معاملے میں میڈیا ایک موثر ہتھیار ہے لیکن اس کے لیے عوام کو حالات سمجھنے اور تحمل و بردباری سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی اس کا حل ہے۔ اس کے علاوہ اگر معاملات حل کرنے کی کوشش کی جائے تو معاملات مزید الجھتے نظر آتے ہیں۔ اسلام کی بنیاد پر جڑنے والا مضبوط رشتہ ہی ہمیں افغانیوں سے جوڑتا ہے اور یہ بات افغانیوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔بقول علامہ اقبال
بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

Hanzala Imad

Hanzala Imad

تحریر : حنظلہ عماد
[email protected]