ایک وقت تھا کہ مولانا فضل الرحمن ایک ایسے سیلاب کی نذر ہوئے جس کا منبع پانی نہیں تیل تھا۔ کیونکہ عالمی معیشت اور تیل کا چولی دامن کا ساتھ ہے تو ایسے میں تیسری دنیا کے ممالک میں اس کاروبار میں ہاتھ ڈالنے والے تو پورے بدن سمیت گھی میں ہوتے ہیں۔ سو کون بدبخت منافع کو لات مارتا ہے۔ سو ایسا ہی ملک کے ایک معروف صحافی نے بھی کیا۔ جناب نے ایل ڈی اے سے کوڑیوں کے بھاؤ پٹرول پمپس لیز کرائے اور خاموشی سے رحمتیں سمیٹتے رہے۔ لیکن صاحب بھول گئے تھے کہ ہر صبح کی ایک شام آتی ہے اور جو شامی ہو اس پہ تو شام کا آنا ناگزیر ہے۔ سو شام ڈھلی تو صاحب کا حال بھی کھلا اور نسبتیں بھی۔ اب ان کے گذشتہ تمام تر ارشادات مشکوک ہو چکے ہیں کہ جس کا نمک کھایا ہو اس کی جی حضوری تو کرنا ہی پڑتی ہے۔ ہمارے اکثر لکھاریوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ جس ہاتھ میں قلم ہوتا ہے اس کی ذمہ داری منصف سے بھی زیادہ اہم ہوتی ہے کیونکہ اس کا لکھا کسی ایک فیصلہ تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کا لکھا انسانوں پہ اثرانداز ہوتا ہے ان کے فیصلوں پہ اثر انداز ہوتا ہے اور یہ اثراندازی نسلوں تک سفر کرتی ہے۔ لکھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ قلم کی حرمت سے آگاہ ہو۔ کسی ڈر خوف یا لالچ سے بالاتر ہو کر لکھے۔ اختلاف ایک الگ موضوع ہے جو خالصتاً علمی و فکری بنیاد رکھتا ہے لیکن اگر لکھاری تحریر کو بازار میں لے آئے اور دام کے مطابق اختلاف و اتفاق کی روش پہ چل پڑے تو نہ اس کی تحریر میں برکت رہتی ہے اور نہ ہی وہ قلم کار کے منصب پہ پورا اترتا ہے۔
ہمارے ہاں تو ویسے بھی ایک المیہ ہے کہ دانش ور بدقسمتی سے اسے سمجھ لیا جاتا ہے جس کا کھونٹا مضبوط ہو۔ سو آج کل ٹی وی چینلز پہ روز رات کو دانش وروں کا میلہ سجا ہوتا ہے جن میں سے بیشتر علم و دانش کی ابجد سے بھی آگاہی نہیں رکھتے۔ یہاں دانش وری کا معیار یہی ہے کہ آپ کسی اخبار کے مالک ہوں یا آپ نے برسوں رپورٹنگ کی ہو۔ یا آپ اینکر اچھے ہوں آپ کی آواز کا زیر و بم متاثر کن ہو یا پھر آپ کسی ادارے کی بڑی کرسی سے ریٹائر ہوئے ہوں اور شام کا وقت کافی کے کپ کے ساتھ اپنی ‘عالمانہ’ بصیرت بکھیرنے کے خواہش مند ہوں۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی ایک اینکر صاحبہ بچوں کے حقوق کے معاملہ میں قصور وار پائی گئی تھیں لیکن کچھ ہفتوں بعد واپس ایک ٹی وی اسکرین پہ موجود تھیں اور آج کل ملک میں خرابیوں کے ذمہ داروں کو کوس رہی ہیں۔ یہیں ایک معروف چینل روتا رہا کہ مجھے بولنے نہیں دیا جا رہا اور جب اس نے بولنا شروع کیا تو دوسروں کے ایمان کا فیصلہ شروع کر دیا۔ جسے چاہا کافر و گستاخ کہا جسے چاہا غدار کہا۔ جبکہ چینل کے مالک خود دھوکہ دہی کے عالمی اسکینڈل میں شریک ہیں اور صرف یہی نہیں جناب نے ایک منصف کو بھاری رشوت دے کر اپنے حق میں فیصلہ بھی لے لیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ کوڑے دان پہ بیٹھ کرکیسے کوئی دوسرے کے لباس پہ لگے داغ پہ فقرہ کسنے کی جرأت کر لیتا ہے۔
لیکن یہ سب ہمارے ہاں ہوتا ہے اور جائز بھی ہے۔ ہم نے معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پہ جس منافقت کو ترویج دی ہے اب اس کا تدارک آسان نہیں۔ ابھی کچھ وقت ہی گزرا ہے کہ سرکاری ٹی وی کی سربراہی کرنے والے معروف قلم کار کی کارستانیاں منظرِ عام پہ آئی تھیں۔ وہ صاحب بھی اپنے مہربانوں کو خوش کرنے میں کمال مہارت رکھتے تھے اور عمر کے آخری حصہ میں بھی لال رنگ سے ان کی انسیت کم نہ ہوئی تھی بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ عمر کے ساتھ ان کا تجربہ بھی عروج پہ تھا۔ بالکل کراچی کے ان بزرگ شاعر کی طرح جنھیں معانقہ کا شوق محاسبہ کی سیڑھی پہ لے گیا تھا۔ خیر یہ معانقہ اور محاسبہ بھی عجب شے ہے۔ اسلام آباد کے ایک جسٹس اس معاملہ میں بڑی خبروں میں رہتے ہیں۔ جناب کے خلاف کچھ ریفرنسز بھی چل رہے ہیں اور ساتھ ہی ان کی بے باکی بھی عروج پہ ہے۔ خیر جسٹس صاحب کئی برسوں سے چرچا میں ہیں۔ تحریکِ لبیک ہو یا لال مسجد، بلاگرز کے اغواہ کے بعد ہونے والی بلاسفیمی کی جھوٹی مہم کاری ہو یا اسلام آباد کا دھرنا اور اب انتخابات میں آئی ایس آئی اور ذرائع ابلاغ کے کردار کے حوالے سے کیے جانے والے دعوے… صدیقی صاحب نے جو کچھ بولا اس میں کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ یہ الگ موضوع ہے۔ سوال یہ ہے کہ جسٹس صاحب نے زبان اتنی دیر سے کیوں کھولی! جناب کے گذشتہ فیصلے بھی موجود ہیں۔ ان کی کمرۂ عدالت میں کی گئیں کئی جذباتی تقاریر بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ تب وہ کہاں سے احکامات لیتے تھے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کاروبار میں مندی چل رہی ہے تو ایک نیا قضیہ شروع کر دیا گیا۔ عوام کے لیے یہ کوئی نیا انکشاف نہیں کہ انتخابات یا اکثر بڑے فیصلوں میں خفیہ اثراندازی ہوتی ہے لیکن کیا جسٹس صاحب یہ اعلان بھی کرنا چاہیں گے کہ ان نے زندگی میں کس کس موقع پہ خفیہ ہاتھوں پہ بوسے دیے۔ ورنہ ایک بوسہ تو ویسے بھی انھیں کافی بھاری پڑا ہوا ہے۔
اگلے دنوں اسلام آباد میں بھی ہجوم نے آئی ایس آئی مردہ باد کے نعرے لگائے۔ عوام میں اداروں کے لیے کم ہوتا وقار ایک ایسی حقیقت ہے جس سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔ یہ وقت ایک بڑے فیصلہ کا ہے۔ ریاست کے سب اداروں کو مل بیٹھ کر یہ طے کرنا ہو گا کہ وہ طاقت و اختیار کے لیے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہیں گے یا اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ذمہ داریاں نبھائیں گے۔ ابھی سراج رئیسانی کی وفات کے بعد ایک طاقتور صاحب نے اپنے ٹوئیٹر اکاونٹ پہ سراج رئیسانی کی وطن سے محبت کو ظاہر کرنے کے لیے دو تصاویر شیئر کیں تھیں جن میں سے ایک میں سراج رئیسانی ہندوستانی پرچم زمیں پہ بچھا کر اُس پہ کھڑے تھے اور دوسرے میں ان نے اپنے جوتے پہ ہندوستانی پرچم لگا رکھا تھا۔ سراج رئیسانی کی وطن سے محبت طاہر کرنے کے لیے ایسی بہت سی تصاویر دستیاب ہیں جن میں انھوں نے پاکستانی پرچم کو سینے پہ سجا رکھا ہے لیکن ٹویٹر والے صاحب کو وہ تصاویر شاید پسند نہ آئیں کیونکہ ان کے نزدیک وطن سے محبت کا اظہار دوسرے کے وطن کو گالی دینے میں ہے۔ یہ وہ منفی سوچ ہے جسے بڑی محنت سے ہماری قوم کی نسوں میں بھرا گیا ہے۔
سیاسی منظر نامہ کچھ ایسا ہے کہ مسلم لیگ کے امیدواروں کی نااہلی اور توڑ جوڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ ایفی ڈرین کا معاملہ بھی نبٹا دیا گیا اور حنیف عباسی کو عدالت نے عمر قید کی سزا سنا دی۔ یہ معاملہ کئی برسوں سے لٹکتا چلا آ رہا تھا۔ اگرچہ انتخاب سے چار دن قبل فیصلہ آیا ہے جس پہ سوال اٹھتے ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ عدالت اس فیصلہ کو بہت پہلے ہی نبٹا دیتی۔ قوم میں زہر بانٹنے والوں کو اتنی رعایت جو ملتی ہے تو پھر انصاف پہ سوال تو اٹھتے ہیں۔ ہماری عدالتوں نے جہاں بڑے بے باک فیصلے کیے وہاں ایک بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ ہر بڑا فیصلہ مقررہ وقت سے ہٹ کر ہوتا آیا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ محفوظ فیصلے کے سنانے میں تاخیر کیوں کی جاتی ہے اور رات کی تاریکی میں کون سے فیصلے سنائے جاتے ہیں۔ سوال کو روکا نہیں جا سکتا۔ سوال تو اٹھتے ہیں۔ جسٹس افتخار چودھری کو اس قوم نے عزت دے کر دیکھ لیا تھا کہ جج بھی انسان ہوتا ہے جو فائدہ نقصان دیکھتا ہے۔ کیا خبر کل ہم کسی موجودہ منصف کی مثال دے رہے ہوں۔