تحریر : ثمرین یعقوب دین اسلام اس طریقے کا نام ہے جس نے نہ صرف زندگی کے ہر پہلو بلکہ موت کے بعد پیش آنے والے معاملات پربھی نہایت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ وراثت کا مسئلہ جو انسان کی موت کے بعد پیش آتا ہے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اور عام طور پر معاشرے کے دو کمزور طبقے یعنی (یتیم)بچے اور عورتیں تقسیمِ وراثت کے وقت ظلم کا نشانہ بنتے ہیں۔ جس سے قطع رحمی اور لڑائی جھگڑے جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ جس طرح گن پوائنٹ پر قیمتی سازو سامان چھیننا جرم ہے اس سے بھی بڑا جرم ہے کہ وراثت میں حصہ داروں کو ان کا حصہ نہ دینا۔ علم میراث ہر گھر کی ضرورت ہے۔سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”جن علوم کا سیکھنا ضروری ہے وہ تین طرح کے ہیں۔
جبکہ دوسرے علوم کا سیکھنا فضیلت کے باب میں آتا ہے۔ اور وہ یہ ہیں کہ قرآن کی آیات احکام کا سیکھنا، دوسرا سنت نبوی کا علم، تیسرا فرائض یعنی وراثت کا علم جو سارے کا سارا حق پر مبنی ہے،(ابوداو ¿د،جلددوم،حدیث:1118)۔”اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھاو ¿، یقیناًیہ آدھا علم ہے اور یہ بھلا دیا جائے گا، اور یہ پہلا علم ہوگا جو میری امت سے اٹھا لیا جائے گا،(ابن ماجہ ، جلد دوم، حدیث:878)۔”علم الفرائض سیکھنا اور سیکھانا بہت بڑی نیکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورة النساءکی آیت نمبر7تا14 اور آیت نمبر176میں واضح کر دیا کہ کس کس وارث کو کتنا کتنا حصہ ملنا ہے۔
میت کے کفن ، دفن کے بعد سب سے پہلے اس کے قرض کی ادائیگی کریں۔اس کے بعد وصیت کو پورا کیا جائے اور خیال رکھیں کہ وصیت،دین (Loan) کی ادائیگی کے بعدتہائی (1/3)حصہ سے کم ہو اور وصیت کسی وارث اور حرام کام کے لیے جائز نہیں۔ان مراحل کے بعد مال کو اصحاب الفروض میں تقسیم کر دیا جائے۔یاد رکھیں جس طرح وقت پر نمازپڑھنا، روزہ رکھنا اور حج ادا کرنا ضروری ہے اسی طرح میراث کو بانٹنے میں تاخیر نہ کریں کیونکہ دیر کرنے سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔قاتل مقتول کے ترکے سے حصہ نہیں پائے گا۔وراثت میں حصہ دینےکو زکوٰة دینے سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
Inherited
اگر کوئی زندہ شخص وراثت تقسیم کرتا ہے تو جتنا بیٹے کو تو دے گا اتنا ہی بیٹی کو دینا پڑے گا کیونکہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر مرنے کے بعد ہے ز ندگی میں یکساں ہی تقسیم کرنا پڑے گا۔کسی بیٹے یا بیٹی کو “عاق نامہ”، کی وجہ سے میراث سے محروم کرنا بلکل غلط ہے۔ مسلم ، غیر مسلم اور غیر مسلم ، مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔بعض کہتے ہیں ہماری بہن نے ہمارے لیے اپنا حق چھوڑ دیا ہے بلکل غلط بات ہے یہ مال ہڑپ کرنے کا بہانا ہے کیونکہ چھوڑے گی تو تب، جب اس کا مال پر قبضہ ہو گا دولت پر تو تم سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہو ۔ وہ تو رشتہ داریاں ٹوٹنے کے ڈر سے کہہ دیتی ہے کہ بھائی میرا حق بھی آپ ہی رکھ لیں۔ تم اس کے اتنے ہی ہمدرد ہو تو اپنے مال میں سے اسے دو کہ بہن، مجھے تم سے ڈبل ملا ہے لہذا میرا کچھ مال آپ رکھ لیں۔
اگر کوئی شخص ساری زندگی نمازیں پڑھے، روزے رکھے،زکوة اور حج ادا کرے لیکن میراث کا مال حصہ داروں کو نہ دے تو وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ پیغبروں کی وراثت نہیں چلتی ان کا ترکہ صدقہ کیا جاتا ہے البتہ انبیاءکرام ایک اور ترکہ یعنی علم کا ترکہ چھوڑ کر جاتے ہیں جو اس علم کو حاصل کرتے ہیں وہ نبیوں کے وارث ہوتے ہیں۔ کتاب و سنت نے قانونِ وراثت سے منہ پھیرنے والوں کو خبردار فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے میراث کے متعلق قواعد و ضوابط بیان فرمانے کے بعد کہا:”یہ (تمام احکام) اللہ کی حدیں ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم)کی فرمانبرداری کرے گا۔
اللہ پاک اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔اور جو اللہ تعالیٰ اور ا ±سکے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکل جائے گا اس کو اللہ تعالیٰ دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ذلت کا عذاب ہوگا،(النسائ:13تا 14)”۔حضرت انس بن مالک رضی ا? تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”جو اپنے وارث کی میراث سے راہ افرار اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ روز قیامت جنت سے اس کی میراث منقطع فرما دیں گے،(ابن ماجہ، جلد دوم، حدیث:862)”۔
ALLAH
حضرت ابوہریرہ رضی ا? تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مرد اہل خیر کے اعمال ستر سال تک کرتا رہتا ہے پھر جب وصیت کرتا ہے تو اس میں ظلم اور نا انصافی کرتا ہے تو اس کے برے عمل پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے اور وہ دوزخ میں چلا جاتا ہے اور ایک مرد ستر سال تک اہل شر کے اعمال کرتا ہے پھر وصیت میں عدل و انصاف سے کام لیتا ہے تو اس اچھے عمل پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے اور وہ جنت میں چلا جاتا ہے،( ابن ماجہ، جلد دوم، حدیث:863)”۔کمزوروں پر ظلم کرنے والو یاد رکھو!خلاف شریعت اقتدار چل جاتاہے لیکن ظلم کا اقتدار نہیں چلتا۔
میری آپ سے ردمندانہ اپیل ہے کہ ذرا سوچئے:”اگر کوئی آپ کا مال چھینے جس طرح آپ دوسروں کے حقوق دبا رہے ہیں تو آپ کیسا محسوس کریں گے۔ اندازہ لگائیں اگر جس دولت پر آپ نے قبضہ کیا ہے نہ بھی ہوتی تو تمہارے اخراجات کس نے پورے کرنے تھے؟تم کیوں اللہ تعالیٰ کی وصیت کو چھوڑ کر اپنی بات کو بلند کرنے کی کوشش کرتے ہو ، کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :”اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد کسی امر کا کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔
Hazrat Mohammad PBUH
یاد رکھوجو اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول کی نافرمانی کریگا وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہوگا سورہ احزاب۔اور فرمایا:”سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے،(النور: 63) … رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو اپنے وارث کو میراث سے محروم کردے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت کی میراث سے محروم کردے گا۔(ابنِ ماجہ)۔